مجھے خاموش رہنے دو

مجھے خاموش رہنے دو (1938)
by محمد صادق ضیا
324509مجھے خاموش رہنے دو1938محمد صادق ضیا

یہ چڑیاں چہچہاتی ہیں تو ان کو چہچہانے دو
پرندوں کو درختوں پر خوشی کے گیت گانے دو
زمیں پر ابر کی ہر بوند کو نغمے سنانے دو
فلک پر لیلیٔ قوس قزح کو مسکرانے دو
مرا دل سرد ہے مجھ کو یوں ہی بے ہوش رہنے دو
مجھے خاموش رہنے دو

فضائے دہر لبریز مسرت ہے تو مجھ کو کیا
اگر دنیا خراب عیش و عشرت ہے تو مجھ کو کیا
جو معمور صدا ساز محبت ہے تو مجھ کو کیا
جہاں کو میرے نغموں کی ضرورت ہے تو مجھ کو کیا
مجھے اپنے خیالوں ہی سے ہم آغوش رہنے دو
مجھے خاموش رہنے دو

مجھے فرصت نہیں ہے فرط غم سے سر اٹھانے کی
گراں ہے میرے دل پر شورش و کاوش زمانے کی
ابھی کڑیاں مرتب ہو رہی ہیں اک فسانے کی
ابھی ساعت کہاں ہے داستان دل سنانے کی
کسی کی یاد میں مجھ کو تصور کوش رہنے دو
مجھے خاموش رہنے دو

جو میں بولا تو سب کو اپنے اشکوں میں بھگو دوں گا
دل انساں میں غم کے سینکڑوں کانٹے چبھو دوں گا
جو میں بولا تو گویائی زمانے بھر کی کھو دوں گا
جو میں بولا تو دنیا کو خموشی میں ڈبو دوں گا
یہی بہتر ہے خلوت میں مجھے خاموش رہنے دو
مجھے خاموش رہنے دو


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).