مجھے خیال ہوا اور عدو کو خواب ہوا
مجھے خیال ہوا اور عدو کو خواب ہوا
نصیب پر نہ ہوا یہ کہ ایک عذاب ہوا
ہوئی لبوں کو نہ جنبش کہ بس عتاب ہوا
تمہارا نام نہ لینا ہوا عذاب ہوا
ایک اژدہام ہے اس شوخ کی گلی میں آج
مرے نصیب سے محشر بپا شتاب ہوا
بگاڑی خو تری کس نے بتا تو اے ظالم
زباں پہ بوسہ کا نام آتے ہی عتاب ہوا
گلی گلی مرا لاشہ لئے پھرا قاتل
پس از فنا بھی یہ مردہ مرا خراب ہوا
عجب طرح کا ہے دل سنگ اس کا ورنہ حیاؔ
مرے تڑپنے پہ دشمن کا زہرہ آب ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |