مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا

مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا
by ہجر ناظم علی خان

مجھے فریب وفا دے کے دم میں لانا تھا
یہ ایک چال تھی ان کی یہ اک بہانا تھا

نہ درد تھا نہ خلش تھی نہ تلملانا تھا
کسی کا عشق نہ تھا وہ بھی کیا زمانا تھا

کھلی جو آنکھ تو صیاد کے قفس میں کھلی
نہ باغ تھا نہ چمن تھا نہ آشیانا تھا

مرے نصیب میں تھی موت اس بہانے سے
کسی کا عشق مری موت کا بہانا تھا

کوئی کسی کا نہیں اس جگہ یہ محشر ہے
وہ دن گئے کہ ستم گر ترا زمانا تھا

ترے جمال کو تھا کوہ طور سے کیا کام
نگاہ بن کے مری آنکھ میں سمانا تھا

خبر کسے تھی کہ زانو سے سر اٹھا دوگے
ہمیں سے چوک ہوئی آپ میں نہ آنا تھا

ہزار رنج ہیں اب یہ بھی اک زمانا ہے
کوئی ملال نہ تھا وہ بھی اک زمانا تھا

پیامبر کہیں رستے ہی سے نہ پھر آئے
تجھے بھی اے دل بیتاب ساتھ جانا تھا

رقیب سے نہ کبھی حال درد دل کہتے
غرض یہ تھی کہ انہیں اس طرح سنانا تھا

سنا کیا کوئی خلوت میں رات بھر اے ہجرؔ
عجیب طرح کا دل کش مرا فسانہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse