مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام الٹا
تو کیا بہک کے میں نے اسے اک سلام الٹا
سحر ایک ماش پھینکا مجھے جو دکھا کے ان نے
تو اشارا میں نے تاڑا کہ ہے لفظ شام الٹا
یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام الٹا
بڑھوں اس گلی سے کیوں کر کہ وہاں تو میرے دل کو
کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام الٹا
در مے کدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی
کہ پچھاڑ کھا گرا واں دل تشنہ کام الٹا
نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے آپ پھیر دیجے وہ مرا سلام الٹا
لگے کہنے آب مائع تجھے ہم کہا کریں گے
کہیں ان کے گھر سے بڑھ کر جو پھرا غلام الٹا
مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تو نے اسے لفظ رام الٹا
نرے سیدھے سادے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو
ہمیں کج جو سمجھے سو خود ولد الحرام الٹا
تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانوں گا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام الٹا
فقط اس لفافہ پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشاؔ یہ ترا ہی نام الٹا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |