مجھ قبر سے یار کیونکے جاوے
مجھ قبر سے یار کیونکے جاوے
ہے شمع مزار کیونکے جاوے
رہتا ہے رقیب نت تیرے سنگ
چھاتی کا پہاڑ کیونکے جاوے
حیراں ہوئے بسکہ منہ تیرا دیکھ
گلشن سے بہار کیونکے جاوے
ہے ہجر کی رات سنسناتی
ناگن سے پھنکار کیونکے جاوے
نت ہے مرا کینہ اس کے دل میں
پتھر سے شرار کیونکے جاوے
کس وجہ اٹھے وہ منہ سے یہ دل
گلشن سے ہزار کیونکے جاوے
گلزار کو فصل گل میں عاشق
پے لالۂ داغدار کیونکے جاوے
ہے بزم بتوں سے شیخ محروم
جنت میں حمار کیونکے جاوے
منہ سے تیرے سرکے زلف کس وجہ
گلزار سے مار کیونکے جاوے
کیوں کر کروں ضبط آہ قاتل
گھائل سے پکار کیونکے جاوے
جیتا ہے اسی گلی میں عزلتؔ
جب جی دیا ہار کیونکے جاوے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |