مجھ پر ان کا عتاب ہو ہی گیا

مجھ پر ان کا عتاب ہو ہی گیا (1895)
by رنج حیدرآبادی
324373مجھ پر ان کا عتاب ہو ہی گیا1895رنج حیدرآبادی

مجھ پر ان کا عتاب ہو ہی گیا
جان پر اک عذاب ہو ہی گیا

دل مرا آخر اے غم جاناں
تیرے ہاتھوں خراب ہو ہی گیا

لاکھ چاہا بچائے اس سے خدا
عشق خانہ خراب ہو ہی گیا

غیر نے امتحان دے ہی دیا
بے حیا کامیاب ہو ہی گیا

میکدے سے گیا جو مسجد کو
مجھ کو حاصل ثواب ہو ہی گیا

آپ کا اور میرا افسانہ
شہر میں انتخاب ہو ہی گیا

آخر اک روز وہ بت کافر
حسن میں لا جواب ہو ہی گیا

اس نے کی غیر کی طرف داری
یہ بھی روز حساب ہو ہی گیا

غش ہے زاہد شراب کوثر پر
اس کو شوق شراب ہو ہی گیا

دیکھنا نامہ بر کی طراری
یہ بھی حاضر جواب ہو ہی گیا

دشمنوں کی مراد بر آئی
دوستوں پر عتاب ہو ہی گیا

ایک دو وقت کے وہ ملنے میں
غیر سے بے حجاب ہو ہی گیا

وہ نہ اٹھے بغیر جان لئے
ان کا مقصد شتاب ہو ہی گیا

باتوں باتوں میں رنجؔ رنجؔ ان سے
آخر اک دن جناب ہو ہی گیا


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.