مجھ کو عاشق کہہ کے اس کے روبرو مت کیجیو
مجھ کو عاشق کہہ کے اس کے روبرو مت کیجیو
دوستاں گر دوست ہو تو یہ کبھو مت کیجیو
جس ادا کا کشتہ ہوں میں وہ رہے میرے ہی ساتھ
اس ادا کو مبتذل اے خوبرو مت کیجیو
وقت رخصت دل نے اتنا ہی کہا رو کر کہ بس
اب پھر آنے کی مرے تو آرزو مت کیجیو
میں تو یوں ہی تم سے دیوانہ سا بکتا ہوں کہیں
اس کے آگے دوستاں یہ گفتگو مت کیجیو
زلف کے کوچہ سے ہو گلشن میں گزرے ہے صبا
آج واں جا کر گلوں کو کوئی بو مت کیجیو
کل کے جھگڑے میں بھلا ہے کس کے یارو حق بطرف
واجبی جو ہو سو کہیو میری رو مت کیجیو
واں حسنؔ ہرگز نہیں ہے ڈھیل پھر جانے میں کچھ
آشنائی پر بھروسہ اس کی تو مت کیجیو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |