مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند

مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند
by ریاض خیرآبادی

مجھ کو نہ دل پسند نہ دل کی یہ خو پسند
پہلو سے میرے جائے دل آرزو پسند

تجھ کو عدو پسند ہے وضع عدو پسند
مجھ کو ادا پسند تری مجھ کو تو پسند

روز ازل تھے ڈھیر ہزاروں لگے ہوئے
چپکے سے چھانٹ لائے دل آرزو پسند

تم نے تو آستیں کے سوا ہاتھ بھی رنگے
آیا شہید ناز کا اتنا لہو پسند

اے دل تری جگہ شکن زلف میں نہیں
خو بو تری پسند نہ کافر کو تو پسند

پہنچا جو میں تو دھوم مچی بزم یار میں
آئے ہیں آج ایک بڑے آرزو پسند

مسجد میں ظرف آب نہ تھا کوئی لے چلے
آیا جو میکدے میں اچھوتا سبو پسند

جنت کی حور جیسے کوئی میری قبر پر
اے شمع اس طرح مجھے آئی ہے تو پسند

آتا پسند کاش کچھ ان کا کلام بھی
بزم سخن میں آئے کئی خوش گلو پسند

ہو عکس آئنے میں ترا یا ہو کوئی اور
آیا ہے اک حسین ترے روبرو پسند

دن میں شباب کے وہ بھرے ہیں شباب میں
مسکی ہوئی قبا میں نہیں ہے رفو پسند

میرا مذاق اور ہے مجھ کو تو اے کلیم
پردے کے ساتھ دور سے ہے گفتگو پسند

مے کا نہ میکدے کا نہیں کچھ رہے گا ہوش
آئے خدا کرے نہ کوئی خوب رو پسند

کس طرح اس نے روکے ملایا ہے خاک میں
آیا نہ آنکھ کو بھی ہمارا لہو پسند

کچھ شوق ہے تو اہل خرابات سے ملو
اے صوفیو نہیں یہ ہمیں ہاؤ ہو پسند

آئے گا مے کشو بط مے کا شکار یاد
جنت میں آ گئی جو کوئی آب جو پسند

سو بار سر سے شیخ کے ٹکرا چکے جسے
ہم کو تو میکدے میں وہی ہے سبو پسند

جب پی لگا کے منہ دم افطار رند نے
بوتل کے منہ کی آئی فرشتوں کو بو پسند

ہو جاؤں میں بھی گم کہیں تیری تلاش میں
تیری طرح مجھے ہے تری جستجو پسند

یہ کون ہیں ریاضؔ ہیں رسوائے کوئے یار
آئے ہیں آج بن کے بڑے آبرو‌ پسند

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse