مجید کا ماضی

مجید کا ماضی (1950)
by سعادت حسن منٹو
324958مجید کا ماضی1950سعادت حسن منٹو

مجید کی ماہانہ آمدن ڈھائی ہزار روپے تھی۔ موٹر تھی۔ ایک عالیشان کوٹھی تھی۔ بیوی تھی۔ اس کے علاوہ دس پندرہ عورتوں سے میل جول تھا۔ مگر جب کبھی وہ وسکی کے تین چار پیگ پیتا تو اسے اپنا ماضی یاد آجاتا۔ وہ سوچتا کہ اب وہ اتنا خوش نہیں جتنا کہ پندرہ برس پہلے تھا۔ جب اس کے پاس رہنے کو کوٹھی تھی، نہ سواری کے لیے موٹر۔ بیوی تھی نہ کسی عورت سے اس کی شناسائی تھی۔ ڈھائی ہزار روپے تو ایک اچھی خاصی رقم ہے۔ ان دنوں اس کی آمدن صرف ساٹھ روپے ماہوار تھی۔ ساٹھ روپے جو اسے بڑی مشکل سے ملتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ خوش تھا۔ اس کی زندگی افتاں و خیزاں حالات کے ہوتے ہوئے بھی ہموار تھی۔

اب اسے بے شمار تفکرات تھے۔ کوٹھی کے،بیوی کے، بچوں کے، ان عورتوں کے جن سے اس کا میل جول تھا۔ انکم ٹیکس کا ٹنٹا الگ تھا، سیلز ٹیکس کا جھگڑا جدا۔ اس کے علاوہ اور بہت سی الجھنیں تھیں جن سے مجید کو کبھی نجات ہی نہیں ملتی تھی۔ چنانچہ اب وہ اس زمانے کو اکثر یاد کرتا تھا جب اس کی زندگی ایسے تفکرات اور ایسی الجھنوں سے آزاد تھی۔ وہ ایک بڑی غریبی کی لیکن بڑی خوشگوار زندگی بسر کرتا تھا۔

انکم ٹیکس زیادہ لگ گیا ہے۔ ماہروں سے مشورہ کرو،آفیسروں سے ملو، ان کو رشوت دو، سیلز ٹیکس کا جھگڑا چکاؤ،بلیک مارکیٹ کرو،یہاں سے جو کماؤ اس کو وائٹ کرو، جھوٹی رسیدیں بناؤ، مقدموں کی تاریخیں بھگتو، بیوی کی فرمائشیں پوری کرو، بچوں کی نگہداشت کرو۔ یوں تو مجید کام بڑی مستعدی سے کرتاتھا اور وہ اپنی اس نئی ہنگامہ خیز زندگی میں رچ مچ گیا تھا لیکن اس کے باوجود ناخوش تھا۔ یہ ناخوشی اسے کاروباری اوقات میں محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اس کا احساس اس کو صرف اس وقت ہوتا تھا جب وہ فرصت کے اوقات میں آرام سے بیٹھ کروسکی کے تین چار پیگ پیتا تھا۔ اس وقت بیتا ہوا زمانہ اس کے دل و دماغ میں ایک دم انگڑائیاں لیتا ہوا بیدار ہو جاتا اور وہ بڑا سکون محسوس کرتا۔ لیکن جب اس بیتے ہوئے زمانے کی تصویر اس کے دل و دماغ میں محو ہو جاتی تو وہ بہت مضطرب ہو جاتا، پر یہ اضطراب دیرپا نہیں ہوتا تھا کیونکہ مجید فوراً ہی اپنی کاروباری الجھنوں میں گرفتار ہوجاتا تھا۔

مجید نے جو کچھ بنایا تھا، اپنی محنت و مشقت سے بنایا تھا۔ کوٹھی، اس کا سازو سامان، موٹر غرضیکہ ہر چیز اس کے گاڑھے پسینے کی کمائی تھی۔ اس کو اس بات کا بہت مان تھا کہ آسائش کے جتنے سامان ہیں، سب اس نے خود بنائے ہیں۔ اس نے کسی سے مدد نہیں لی، لیکن تفکرات اب زیادہ ہوگئے تھے۔

وہ جو دس پندرہ عورتیں تھیں،اس کے لیے وبال جان بن گئی تھیں۔ ایک سے ملو تو دوسری ناراض ہو جاتی تھی۔ٹیلی فون پہ ٹیلی فون آرہے ہیں۔ بیوی کا ڈر الگ، کاروبار کی فکر جدا، عجب جھنجٹ تھا۔ مگر وہ دن بھی تھے جب مجید کو صرف دو روپے روزانہ ملتے تھے۔ ساٹھ روپے ماہوار، جو اسے بڑی مشکل سے ملے تھے مگر دن عجیب انداز میں گزرتے تھے۔ بڑے د لچسپ تھے وہ دن۔ بڑی دلچسپ تھیں وہ راتیں جو لکڑی کے ایک بنچ پر گزرتی تھیں جس میں ہزار ہا کھٹمل تھے، خدا معلوم کتنے عمر رسیدہ۔ کیونکہ وہ بنچ بہت پرانی تھی۔ اس کے مالک نے دس برس پہلے اس کو ایک دکاندار سے لیا تھا جو اپنا کاروبار سمیٹ رہا تھا۔ اس دکاندار نے گیارہ برس پہلے اس کا سودا ایک کباڑی سے کیا تھا۔

مجید کوجو مزا، جو لطف اس کھٹملوں سے بھری ہوئی بنچ پر سونے میں آیا تھا اب اسے اپنے پرتکلف اسپرنگوں والے پلنگ پر سونے میں نہیں آتا تھا۔ اب اسے ہزاروں کی فکر ہوتی تھی۔ اس وقت صرف دو روپے روزانہ کی۔ ان دنوں اس کے پاس کینوس کے دو بوٹ تھے، اب سیکڑوں تھے۔۔۔ مگر وہ بات نہیں تھی۔ہر روز دن کے کام سے فارغ ہو کر جب وہ اپنے دفتر کے بنچ پرسونے لگتاتو بوٹ اتار کر اس پر بلینکو ملتا۔صبح اٹھ کر حمام میں اکنی دے کر نہاتا، شیو کرتا سامنے ہوٹل میں ،باہر والے سے کہتا کہ اس کا ناشتہ لے آئے، ایک مکھن لگا براؤن، ایک پیالی چائے۔ لطف آ جاتا۔ ناشتہ کر کے پاسنگ شو کا سگریٹ پیتا، ایک پان کھتا اور کام شروع کر دیتا۔

دوپہر کا کھانا وہ بھنڈی بازار میں حاجی کے ہوٹل میں کھاتا،یہ ہوٹل کتنا اچھا تھا۔ کھڑی دال،گھی میں بگھاری ہوئی،کتنی مزے دار ہوتی تھی۔ کھارا گوشت تو بے حد لذیذ ہوتا تھا، پھر برف کا ٹھنڈا پانی، پاسنگ شو کا ایک سگریٹ، اس کا سارا وجود ہشاش بشاش ہو جاتا تھا۔

کھانے کے بعد تھوڑا سا آرام کیا پھر کام شروع کر دیا۔شام کو چھ بجے فارغ ہوئے، ایک آنہ ٹرام پر خرچا، اور اپولو بندر پہنچ گیے۔ ٹھنڈی ہوا، بھانت بھانت کے آدمی، بھانت بھانت کی بولیاں، بڑی بڑی عالی شان عمارتیں، وسیع و عریض سمندر، اونچی اونچی نہریں، کشتیاں، موٹریں، سائیکلیں، خوبصورت عورتیں، گجراتی عورتیں، مرہٹی عورتیں، جو اپنے چمکیلے جوڑوں پر پھولوں کی بینی لگاتی تھیں۔ پارسی عورتیں، یہودی عورتیں، تیکھی تیکھی ناک والی اینگلو انڈین اور یوروپین عورتیں ۔یہ سب اس کے پاس سے گزرتیں، وہ ان کو دیکھتا تو اس کے دل و دماغ کو فرحت پہنچتی۔اس کو کبھی یہ خواہش نہ ہوتی کہ ان میں کوئی اس کی ہو جائے۔ لیکن اب بیوی کے علاوہ دس پندرہ عورتوں سے اس کا جنسی میل جول تھا۔ اب وہ ہر خوبصورت عورت کو شہوانی نظروں سے دیکھتا تھا۔ ترکیبیں سوچتا کہ کس طرح ان کو حاصل کیا جائے۔

اب بھی وہ سیر کرتا تھا،باغوں میں گھومتا تھا،مگر پھول اتنے خوبصورت دکھائی نہ دیتے جتنے کہ اس زمانے میں دکھائی دیتے تھے۔ اب سیکڑوں پھول اس کے گل دانوں میں پڑے رہتے تھےجو مرجھا جانے پر پھینک دیے جاتے تھے،اس کی نگاہ ان پر پڑتی ہی نہیں تھی،پڑتی بھی ہوگی تو وہ ان میں کوئی کشش محسوس نہیں کرتا تھا۔

ایک دن اپولو بندرگیے، دوسرے دن چوپاٹی چلے گیے، دہی بڑے اور چاٹ کھائی، گیلی رات پر بیٹھے سمندر کا نظارہ کرتے رہے۔دور حد نگاہ تک پھیلا سمندر، دھوپ میں چاندنی کی طرح چمکتی ہوئی لہریں، کشتیوں کے سفید سفید بادبان، یہاں سے جی اکتایا تو مالا بار ہل چلے گیے۔ ہینگنگ گارڈنز کیسا فرحت بخش مقام تھا۔

اس زمانے میں اس کو کوئی دشمن نہیں تھا،اس کو ساری دنیا دوست نظر آتی تھی، ٹرام اس کی دوست تھی،کھلا آسمان اس کا دوست تھا، سڑکیں اور فٹ پاتھ اس کے دوست تھے، کھٹملوں سے بھری ہوئی بنچ پر سونے سے پہلےوہ فٹ پاتھوں پر سویا کرتا تھا۔۔۔ ہر چیز اس کو اپنی محسوس ہوتی تھی مگر اب اپنے بھی پرائے لگتے تھے۔ سیکڑوں حریف تھے کاروبار میں، عشق بازیوں میں، ہر جگہ، ہر مقام پر اس کا کوئی نہ کوئی حریف موجود ہوتا تھا۔

وہ زندگی عجیب و غریب تھی۔ یہ زندگی بھی عجیب و غریب تھی مگر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ تفکر سے آزاد تھی، یہ تفکر سے پر۔ چھوٹی سے چھوٹی خوشی اس کے دل و دماغ میں ایک عرصے تک موجود رہتی، ایک عرصے تک اس کو شاداں و فرحاں رکھتی۔ چھ آنے دے کر ایک میل ٹیکسی میں بیٹھے تو یہ ایک بہت بڑی عیاشی تھی۔ بھکاری کو ایک پیسہ دیا تو بڑی روحانی مسرت محسوس کی۔ اب وہ سیکڑوں کی خیرات کرتا تھا اور کوئی روحانی مسرت محسوس نہیں کرتا تھا اس لیے کہ یہ محض نمائش کی خاطر ہوتی۔

اس زمانے میں اس کی عیاشیاں بڑی چھوٹی چھوٹی مگر بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ خود کو خوش کرنے کے لیے وہ بڑے نرالے طریقے ایجاد کرلیتا تھا۔الیکٹرک ٹرین میں بیٹھے اور کسی گاؤں میں جا کر تاڑی پینے لگے۔پتنگ لیا اور چوپاٹی پر بچوں کے ساتھ اڑانے لگے۔ دادر اسٹیشن پر صبح سویرے چلے گئے اور اسکول جانے والی لڑکیاں تاڑتے رہے۔۔۔ پل کے نیچے کھڑے ہوگئے۔ اینگلو انڈین لڑکیاں اسکرٹ پہنے اوپر چڑھتیں تو ان کی ننگی ٹانگیں نظر آتیں۔ اس نظارے سے اس کو بڑی طفلانہ سی مسرت محسوس ہوتی۔

کبھی کبھی طویل فاصلے پیدل طے کرتا۔ گھر پہنچتا تو اسے خوشی ہوتی کہ اس نے اکنی یا دونی بچا لی ہے۔ یہ اکنی یا دونی وہ کسی ایسی چیز پر خرچ کرتا جو اس کے روزانہ پروگرام میں نہیں ہوتی تھی۔کسی لڑکی کو محبت بھرا خط لکھا اور جو پتا دماغ میں آیا لکھ کر پوسٹ کردیا اور اس حماقت پر دل ہی دل میں خوب ہنسے۔ایک انگلی کا ناخن بڑھا لیا اور کسی دکان سے ٹسٹ کرنے کے بہانے اس پر کیوٹکس لگالیا۔ ایک دن صرف دوسروں سے مانگ مانگ کے سگریٹ پیے اور بے حد شرارت بھری خوشی محسوس کی۔دفتر میں بنچ کے کھٹملوں نے زیادہ تنگ کیا تو ساری رات بازاروں میں گھومتے رہے اور بجائے کوفت کے راحت محسوس کی۔جیب میں پیسے کم ہوئے تو دوپہر کا کھانا گول کردیا اور یہ محسوس کیا کہ وہ کھا چکا ہے۔

اب یہ باتیں نہیں تھی۔ دفتر سے اس نے روپے کمانے کے ڈھنگ سیکھے۔ دولت آنے لگی تو یہ سب باتیں آہستہ آہستہ غائب ہوگئیں۔ اس کی یہ ننھی ننھی مسرتیں سب سونے اور چاندی کے نیچے دب گئیں۔ اب رقص و سرود کی محفلیں جمتی تھیں مگر ان سے وہ لطف حاصل نہیں ہوتا تھا، جو پل کے نیچے کھڑے ہو کر ایک خاص زاویے سے ننگی متحرک ٹانگیں دیکھنے میں محسوس ہوتا تھا۔ اس کی راتیں پہلے بالکل تنہا گزرتی تھیں، اب کوئی نہ کوئی عورت اس کی آغوش میں ہوتی مگر وہ سکون غائب تھا۔ وہ کنوارا سکون جس میں وہ رات بھر ملفوف رہتا تھا۔ اب اسے یہ فکر دامن گیرہوتی تھی کہ کہیں اس کی بیوی کو پتہ نہ چل جائے، کہیں یہ عورت حاملہ نہ ہو جائے، کہیں اس کو بیماری نہ لگ جائے، کہیں اس عورت کا خاوند نہ آن دھمکے۔ پہلے ایسے تفکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

اب اس کے پاس ہر قسم کی شراب موجود رہتی تھی مگر وہ مزا،وہ سرورجو اسے پہلے ہر روز شام کو جاپان کی بنی ہوئی، ’’اب ہی بیئر‘‘ پینے میں آتا تھا، بالکل غائب ہی ہوگیا تھا۔اس کا معمول تھا کہ دفتر سے فارغ ہو کر چوپاٹی یا اپولوبندر کی سیر کی، خوب گھومے پھرے، نظاروں کا مزا لیا، آٹھ بجے تو گھر کا رخ کیا، کسی نل سے منہ دھویا اور بائی کھلہ پل کے پاس والی بار میں داخل ہوگئے۔ پارسی سیٹھ کی جو بہت ہی موٹا اور اس کی ناک بڑی بے ہنگم تھی، صاحب جی کہا، ’’کہم سیٹھ سوں حال چھے؟‘‘

اس کو بس صرف اتنی گجراتی آتی تھی، مگر جب وہ کہتا تو اسے بڑی خوشی ہوتی کہ وہ اتنے الفاظ بول سکتا ہے۔ سیٹھ مسکراتا اور کہتا، ’’ساروچھے، ساروچھے‘‘ پھر وہ پارسی سیٹھ سے کاؤنٹر کے پاس کھڑے ہو کر جنگ کی باتیں چھیڑ دیتا۔ تھوڑی دیر کے بعد یہاں سے ہٹ کر وہ کونے والی میز کے پاس بیٹھ جاتا۔ یہ اس کی محبوب میز تھی۔ اس کے اوپر کا حصہ سنگ مرمر کا تھا۔ بیرا اسے گیلے کپڑے سے صاف کرتا اور مجید سے کہتا، ’’بولو سیٹھ۔‘‘

یہ سن کر مجید خود کو واقعی سیٹھ سمجھتا۔ اس وقت اس کی جیب میں ایک روپے چار آنے ہوتے۔ وہ بیرے کی طرف دیکھ کر بڑی شان سے مسکراتا اور کہتا،’’ہر روز تم مجھ سے پوچھتے ہو سب جانتے ہو۔۔۔ لے آؤ جو پیا کرتا ہوں۔‘‘

بیرا اپنی عادت کے مطابق جانے سے پہلے گیلے کپڑے سے میز صاف کرتا۔ پونچھ کر ایک گلاس رکھتا۔ ایک پلیٹ میں کابلی چنے، دوسری میں کھاری سینگ یعنی نمک لگی مونگ پھلی لاتا۔ مجید اس سے کہتا، ’’پاپڑ لانا تم ہمیشہ بھول جاتے ہو۔‘‘

یہ چیزیں گزک کے طور پر بیئر کے ساتھ مفت ملتی تھیں۔ مجید نے یہ طریقہ ایجاد کیا تھا کہ بیرے سے کابلی چنوں کی ایک اور پلیٹ منگوا لیتا تھا۔ چنے کافی بڑے بڑے ہوتے تھے۔ نمک اور کالی مرچ سے بہت مزیدار بن جاتے تھے۔ مونگ پھلی کی پلیٹ ہوتی تھی۔ یہ سب مل ملا کر مجید کا رات کا کھانا بن جاتے تھے۔

بیئر آتی تو وہ بڑے پرسکون انداز میں اس کو گلاس میں انڈیلتا۔ آہستہ آہستہ گھونٹ بھرتا۔ ٹھنڈی یخ بیئر اس کے حلق سے اترتی تو ایک بڑی عجیب فرحت اس کو محسوس ہوتی۔ اس کو ایسا لگتا کہ ساری دنیا کی ٹھنڈک اس کے دل و دماغ میں جمع ہوگئی ہے۔۔۔ وہ موٹے پارسی کی طرف دیکھتا اور سوچتا، یہ پارسیوں کی ناک کیوں اتنی موٹی ہوتی ہے۔ اس قوم نے کیا قصور کیا ہے کہ خد ا ان کی ناکوں سے بالکل غافل ہے۔۔۔ پرسوں ٹریم میں جو پارسن بیٹھی تھی، بڑا سڈول بدن خوبصورت آنکھیں، ابھرا ہوا سینہ بے داغ سفیدرنگ، ماتھا کشادہ، پتلے پتلے ہونٹ، لیکن یہ بڑی طوطے ایسی ناک۔ اس کو دیکھ کر مجید کو بہت ترس آیا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ آیا ایسی کوئی ترکیب نہیں ہوسکتی کہ اس کی ناک ٹھیک ہو جائے۔۔۔ پھر اس کے دماغ میں مختلف اوقات پر دیکھی ہوئی خوبصورت اور جوان لڑکیاں تیرنے لگتی تھیں۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ وہ ان کا شباب بیئر میں گھول کر پی رہا ہے۔دیر تک وہاں بیٹھا وہ اپنی زندگی کے حسین لمحات دہراتا رہتا۔

پندرہ دن ہوئے اپولو بندر پر جب تیز ہوا میں ایک یہودن لڑکی کا ریشمی اسکرٹ اٹھا تھا تو کتنی متناسب اور حسین ٹانگوں کی جھلک دکھائی دی تھی۔ پچھلے اتوار ایرانی کے ہوٹل میں پائے کا شوربہ کتنا لذیذ تھا۔ کیسے چٹخارے لے لے کر اس نے اس میں گرم گرم نان بھگو کر کھایا تھا۔رنگین فلم کتنا اچھا تھا۔ رقص کتنا دلفریب تھا ان عورتوں کا۔آج صبح ناشتے کے بعد سگریٹ پی کر لطف آگیا۔ ایسا لطف ہر روز آیا کرے تو مزے آجائیں۔ وہ میاں بیوی جواس نے دادر اسٹیشن پر دیکھے تھے، آپس میں کتنے خوش تھے، کبوتر اور کبوتری کی طرح گٹک رہے تھے۔

کیکی مستری بڑااچھا آدمی ہے۔ کل میں نے اسپرو مانگی تو اس نے مفت دے دی کہنے لگا، ’’اس کے دام کیا لوں گا آپ سے‘‘ پچھلے ماہ اس نے وقت پر میری مدد بھی کی تھی۔ پانچ روپے ادھار مانگے، فوراً دے دیے اور کبھی تقاضا نہ کیا۔ٹریم میں جب میں نے اس روز مرہٹی لڑکی کو اپنی سیٹ دی تو اس نے کتنی پیاری شکر گزاری سے کہا تھا، ’’تھینک یو۔‘‘

پھر وہ موٹے پارسی کی طرف دیکھتا، اس کے چہرے پر یہ بڑی ناک اس کو نظر آتی۔ مجید پھر سوچتا، ’’یہ کیابات ہے، ان پارسیوں کی ناکوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا گیا ہے۔۔۔ کتنی کوفت ہورہی ہے اس ناک سے۔‘‘ فوراً ہی اسے خیال آتا کہ یہ پارسی بڑا نیک آدمی ہے کیونکہ وہ اس کو ادھار دے دیتا تھا۔ جب اس کی جیب میں پیسے نہ ہوتے تو وہ کاؤنٹر کے پاس جاتا اور اس سے کہتا، ’’سیٹھ آج مال پانی نہیں۔۔۔کل!‘‘ سیٹھ مسکراتا، ’’کوئی واندہ نہیں۔‘‘ یعنی کوئی ہرج نہیں۔ پھر آجائیں گے۔

بیئر کی بوتل چودہ آنے میں آتی تھی۔ اس کو خالی کرکے اور پلیٹیں صاف کرکے وہ ہاتھ کے بڑے خوبصورت اشارے سے بیرے کوبل لانے کے لیے کہتا۔ بیرا بل لاتا تووہ اسے ایک روپیہ دیتا اور بڑی شان سے کہتا،’’باقی دو آنے تم اپنے پاس رکھو۔‘‘

بیرا سلام کرتا۔ مجید بے حد مسرور اور شادماں اٹھتا اور پارسی سیٹھ کو ’’صاحب‘‘ کہہ کر دفتر کی طرف روانہ ہوتا۔ وہاں پہنچتے ہی اس کے قدم رک جاتے۔ پڑوس کی گلی میں ایک چھوٹی سی تاریک کھولی میں مس لینا رہتی تھی۔ کسی زمانے میں بڑی مشہور ڈانسر تھی مگر اب بوڑھی ہو چکی تھی۔ یہودن تھی۔ اس کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایستھر اور ہیلن۔ ایستھر سولہ برس کی تھی اور ہیلن تیرہ برس کی۔ دونوں رات کو اپنی ماں کے پاس ایک لمبا کرتہ پہنے لیٹی ہوتی تھیں۔ صرف ایک پلنگ تھا۔ مس لینا فرش پر چٹائی بچھا کرسوتی تھی۔

رات کو بیئر پی کر مس لینا کے ہاں جانا مجید کا معمول بن گیا۔ وہ باہر ہوٹل والے کو تین چائے کا آرڈر دے کر گلی میں داخل ہوتا اور مس لینا کی کھولی میں پہنچ جاتا۔ اندر ٹین کی کپی جل رہی ہوتی۔ ایستھر اور ہیلن قریب قریب نیم برہنہ ہوتیں۔ مجید پہنچتا تو زور سے پکارتا، ’’السلام علیکم۔‘‘

ماں بیٹیاں ٹھیٹ عربی لہجے میں وعلیکم السلام کہتیں اور وہ لوہے کی کرسی پر بیٹھ جاتا اور مس لیناسے کہتا، ’’چائے کا آرڈر دے آیا ہوں۔‘‘ ایستھر باریک آوازمیں کہتی ’’تھینک یو۔‘‘ چھوٹی بستر پر لوٹیں لگانا شروع کردیتی۔ مجید کو اس کی آڑو آڑو جتنی چھاتیوں اور ننگی ٹانگوں کی کئی جھلکیاں دکھائی دیتیں جو اس کے مسرور و مخمور دماغ کو بڑی فرحت بخشتیں۔

باہر والا چائے لے کر آتا تو ماں بیٹیاں پینا شروع کردیتیں۔ مجید خاموش بیٹھا رہتا، اس تنگ و تار ماحول میں ایک عجیب و غریب سکون اس کو محسوس ہوتا۔ وہ چاہتا کہ ان تینوں کا شکریہ ادا کرے۔ اس دھواں دینے والی کپی کا بھی شکریہ ادا کرے جو دھیمی دھیمی روشنی پھیلا رہی تھی۔ وہ لوہے کی اس کرسی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا جس نے اس کو نشست پیش کی ہوئی تھی۔

تھوڑی دیر وہ ماں بیٹیوں کے پاس بیٹھتا۔ دونوں لڑکیاں خوبصورت تھیں۔ ان کی خوبصورتی مجید کی آنکھوں میں بڑی پیاری نیند لے آتی۔ رخصت لے کروہ اٹھتا اور جھومتا جھامتا اپنے دفتر میں پہنچ جاتا اور کپڑے بدل کر بینچ پر لیٹتا اور لیٹتے ہی خوشگوار اور پرسکون نیند کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔

فرصت کے اوقات میں وسکی کے تین چار پیگ پی کر جب مجید اس زمانے کو یاد کرتا تو کچھ عرصے کے لیے سب کچھ بھول کر اس میں محوہو جاتا، نشہ کم ہوتا تو وہ بلیک مارکیٹ کے متعلق سوچنے لگتا۔ روپیہ کمانے کے نئے ڈھنگ تخلیق کرتا۔ ان عورتوں کے متعلق غور کرتا جن سے وہ جنسی رشتہ قائم کرنا چاہتا تھا۔

مجید کا ماضی جنگ سے پہلے کی فضا میں گم ہو چکا تھا۔۔۔ ایک مدھم لکیر سی رہ گئی تھی جس کو مجید اب دولت سے پیٹ رہا تھا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.