محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی

محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی
by شاہ مبارک آبرو

محبت سحر ہے یارو اگر حاصل ہو یک روئی
یہ افسوں خوب اثر کرتا ہے لیکن جبکہ جادوئی

خیال ماسوا سیں صاف کر تو اپنے سینے کوں
کہ دل کے رشتۂ اخلاص کوں لازم ہے یکسوئی

لباس پنبئی بن کیونکے گزرے موسم سرما
قیامت ہے یہ تیری سرد مہری تس پے یہ سردی

اندھیرا آ گیا آنکھوں کے آگے خشم سوں میری
جبھی اس چھوکرے کی بو الہوس نیں زلف ٹک چھوئی

پسینے سیں ترے اے شوخ بو آتی ہے دارو کی
ایتی اے فتنہ گر سیکھی کہاں سیں تو نیں بد خوئی

مقابل دختر رز کی جبھی وہ مغبچہ بولا
اب اس کے دیکھ مارے شوق کے پانی ہو کرچوئی

ہوئے پھرتے ہو دشمن آبروؔ کے اے سجن اب تو
کہو الفت دلی اور دوستی جانی وہ کیا ہوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse