محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے
محبت کس قدر یاس آفریں معلوم ہوتی ہے
ترے ہونٹوں کی ہر جنبش نئی معلوم ہوتی ہے
یہ کس کے آستاں پر مجھ کو ذوق سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبیں اپنی جبیں معلوم ہوتی ہے
محبت تیرے جلوے کتنے رنگا رنگ جلوے ہیں
کہیں محسوس ہوتی ہے کہیں معلوم ہوتی ہے
جوانی مٹ گئی لیکن خلش درد محبت کی
جہاں معلوم ہوتی تھی وہیں معلوم ہوتی ہے
امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرتؔ
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |