محبت کی ٹھوکر

محبت کی ٹھوکر
by اعظم کریوی
319619محبت کی ٹھوکراعظم کریوی

شیاما نے لڑکپن میں کسی کو پیار کیا تھا۔ کسی سے محبت کی تھی لیکن جسے پیار کیا تھا اس کے پیار کا وہ مطلب نہ سمجھتی تھی۔ پیار محبت کامطلب محبت کرنے اور محبت کی ٹھوکر کھانے ہی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ پھر شیاما جوٹھوکروں کے خیال سے گھبراتی تھی وہ اس پیار کرنے والے کو کیسے سمجھ پاتی جو ٹھوکریں کھا چکا تھا۔ شیاما کی آنکھوں میں تو اب تک اس جوان کی صورت بسی تھی جس میں بانکپن تھا جو ہنس ہنس کر پریم کرنا جانتا تھا۔ ایسی حالت میں وہ اس دیوانہ الفت کو کیسے سمجھاتی جو ننگے پاؤں ننگے سر پر ا کرتا تھاجو اس کے سامنے پہنچ کر منہ سے ایک لفظ نہ نکالتا لیکن اس کی آنکھیں دل کا حال بتا دیتی تھیں۔ ایسی محبت کا وہی نتیجہ ہوا جو اکثر لڑکپن کی محبت کا ہوا کرتاہے۔ وہ دیوانہ الفت شیاما کی محبت سے مایوس ہوکر دنیائے عاشقی سے کنارہ کش ہوگیا۔ایسی حالت میں بہت دن گزر گئے۔ لڑکپن کا زمانہ ختم ہوا اور وہ جوان ہوگیا، اس کے دل کے مندرمیں شیاما کی مورت نے اپنا قبضہ جمائے رکھا۔ محبت کی آگ دل کےاندر جلتی تو رہی لیکن ظاہر نہ ہوسکی، اس پر راکھ کی ہلکی سی چادر پڑ گئی تھی۔ ایک دن ہوا کے ایک جھونکے نے چادر الٹ دی۔

شام ہو چکی تھی۔ الہ آباد، مغل سرائے پسنجر کے انٹرکلاس کے ڈبہ میں انند کمار جو ایک مشہور اخبار کا ایڈیٹر تھا بیٹھا ہوا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا، سامنے اخباروں کا ڈھیر تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد کتاب سے نظر ہٹاکر وہ کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا۔ گاڑی بھک بھک کرتی ہوئی تیزی سے جارہی تھی۔ ہر چیز بھاگتی دوڑتی چلتی پھرتی نظر آرہی تھی۔ جتے ہوئے کھیت، ہرے بھرے میدان۔ پانی سے بھرے تال تلیاں۔ کندھے پر ہل رکھے بیلوں کو ہانکتے ہوئے جفاکش کسان اور اڑتی ہوئی چڑیوں کا نظارہ نہایت دلکش تھا۔ چاروں طرف خوشی و مسرت کا دریا لہریں مارتا دکھائی دیتا تھا لیکن اس کا اثر انند کے دل پر نہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گوشت پوست اور ہڈی کا پتلا تھا جس میں زندگی تھی لیکن زندگی کا سُکھ جسے کہتے ہیں اس سے وہ محروم تھا۔ اس کی کافی آمدنی تھی، اسے روپے پیسے کی کمی نہ تھی پھر بھی وہ سچی خوشی سے دور تھا۔ انند تفکرات میں ڈوبا ہوا تھا۔ کسی نے ’’مسٹر‘‘ کہہ کر اس کے خیالات کا سلسلہ منقطع کردیا۔ انند نے پھر کر دیکھا۔ ایک کھدرپوش کمسن عورت سامنے کھڑی ہوئی اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں جھجھک یا بناوٹ کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ ’’کیا میں آپ کا بمبئی کرانیکل دیکھ سکتی ہوں؟‘‘ ’’بمبئی کرانیکل ۔۔۔ ضرور ضرور ۔۔۔ آپ بڑی خوشی سے دیکھ سکتی ہیں۔‘‘ سُکڑ کر بیٹھتے ہوئے آنند نے کہا۔ وہ عورت بمبئی کرانیکل لے کر ’’شکریہ! شکریہ!‘‘ کہتی ہوئی اپنی بینچ کی طرف چلی گئی۔

آنند کو سخت تعجب ہوا۔ اچھے گھر کی عورت اتنی نڈر ہوسکتی ہے یہ اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ جن ہندوستانی عورتوں کو وہ اب تک قفس کی چڑیاں سمجھتا تھا انہیں میں کی ایک قیدِ قفس سے نکلی ہوئی عورت کو اتنا آزاد دیکھ کر اسے تعجب ہونا ہی چاہیے تھا۔ اِدھر ادھر بیٹھے ہوئے مسافروں کے درمیان سے ہوکر چلنے پھرنے والی عورت کو آنند دیر تک چپ چاپ غور سے دیکھتا رہا۔ وہ حسین نہ تھی پھر بھی اسے کوئی بدصورت نہ کہہ سکتا تھا۔ اس کے گندمی رنگ کے جسم میں چہرہ کی بناوٹ میں چھوٹے چھوٹے ہونٹوں اور بڑی بڑی آنکھوں میں ایک عجیب قسم کی چمک تھی۔ ان میں کشش تھی، ایسی کشش جو آنند کے دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ ہاں ان میں چمک تھی، ایسی چمک جو آسمان پر اس وقت ہوتی ہے جب سورج غروب ہوتا ہے اور آسمان کے نیلے آنچل سے نکل کر پہلا تارا مسکرانے لگتا ہے۔ سادگی اور نفاست کی ایسی حسین عورت آنند نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ اسی قسم کی ایک جھلک لڑکپن میں ضرور اسے دکھائی دی تھی لیکن وہ تو بہت دنوں کی بات تھی جس کا اب خیال کرنا بھی بے کار تھا۔ ایک مرتبہ اس عورت نے سراٹھاکر آنند کی طرف دیکھا، دونوں کی آنکھیں مل گئیں۔ نوجوان عورت کی آنکھیں فاتحانہ تمکنت سے ہنس پڑیں۔ ہارنے والے کی طرح جھینپ کرآنند نے اپنی نظریں نیچی کرلیں اور پھر کتاب اٹھاکر پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ نوجوان عورت پھر آئی اور بمبئی کرانیکل کو بعد شکریہ واپس کیا۔ جہاں آنند بیٹھا تھا اس کے سامنے والی سیٹ پر جو دو مسافر بیٹھے تھے وہ پیچھے اسٹیشن پر اتر گئے تھے۔ دونوں بینچیں خالی تھیں۔

’’آپ کہاں تشریف لے جارہی ہیں۔ بیٹھیے۔‘‘ انند نے کہا۔

’’میں تو بنارس جارہی ہوں اور آپ؟‘‘ وہ سامنے والی بینچ پر بیٹھ گئی۔

’’میں بھی بنارس ہی جارہا ہوں، غالباً آپ وہاں کانفرنس میں شریک ہونے کے لیے جارہی ہیں۔‘‘

’’آپ کا خیال درست ہے ۔ اسم شریف!

’’شیاما دیوی ۔اور آپ کا ۔۔۔؟‘‘

’’شیاما دیوی! شیاما دیوی! ’’انند نے دل ہی دل میں نام کو دہرایا ۔ لڑکپن کی ایک بھولی بسری ہوئی صورت انند کی آنکھوں کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ شیاما نے مکرر انند کا نام دریافت کیا تو اس نے چونک کر کہا ۔ جی۔۔۔ معاف کیجیے گا، مجھے آنند کمار کہتے ہیں۔‘‘

’’آپ کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

’’میں ایک اخبار کاایڈیٹر ہوں ۔ اور آپ؟‘‘

’’میں ایک اسکول میں استانی ہوں۔‘‘

دونوں خاموش ہوگئے۔ پوچھنے والی باتیں ختم ہوگئیں، اب ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا بات چیت کی جائے۔ اتنےمیں بنارس کا اسٹیشن آگیا۔ شیاما دیوی نے کھڑے ہوکر پوچھا ’’بنارس میں آپ کہاں ٹھہریں گے۔‘‘

’’کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا ارادہ ہے، اور آپ؟‘‘

’’میں اپنی ایک سکھی کے یہاں ٹھہروں گی۔‘‘ ہونٹوں تک ایک استدعا آکر لوٹ گئی۔ ’’کانفرنس میں تو آپ سے ملاقات ہوگی نہ۔‘‘

’’ضرور! میں آپ سے ضرور ملوں گی۔‘‘ اتنا کہہ کر شیاما دیوی نے ہاتھ جوڑکر سرجھکاتے ہوئے انند کو نمسکار کیا اور اپنی بینچ کی طرف چلی گئی اور اپنا چھوٹا سا ٹرنک لیے وہ گاڑی سے اترگئی۔ انند بھی قلیوں سے اپنا اسباب اٹھواکر ٹرین سے اتر پڑا۔

جب کانفرنس کی پہلے دن کی کارروائی ختم ہوئی اور انند اپنی رپورٹ لیے پنڈال سے باہر نکلا تو وہ اداس تھا۔ ’’آج وہ دکھائی کیوں نہیں دی ۔کیا وہ نہیں آئی ۔ کیوں نہیں آئی۔‘‘ وہ یہی سوچتا ہوا جارہا تھا کہ کسی نے ’’انند بابو‘‘ کہہ کرپکارا۔ ڈوبتے ہوئے کو سہارا مل گیا۔ گھنٹوں سے آسمان پر منڈلاتے ہوئے کبوتر یکایک چھتری پر اتر پڑے، خشک تالاب میں چاروں طرف سے یکبارگی پانی بھرنے لگا۔ جھاگ اٹھے اور لہریں مل مل کر ناچنے لگیں، انند کے جسم میں خوشی و مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں، اس نےشیاما دیوی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ قریب پہنچ کر شیاما نےہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔

’’میں آپ کو دیر سے تلاش کر رہا تھا۔‘‘

انند کے سُر میں جو پریم کی جھنکار تھی اس کی چوٹ کھاکر شیاما تلملا گئی اور اس نے کہا ۔ ’’میں بھی آپ کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘

’’پنڈال میں آپ کدھر بیٹھی تھیں میں نے آپ کو نہیں دیکھا۔‘‘

’’لیکن میں نے تو آپ کو دیکھ لیا تھا۔ بدلہ ہوگیا۔‘‘

’’اس وقت آپ کہاں جائیں گے۔ میرے ساتھ چلیے۔‘‘

انند الجھن میں پڑ گیا ۔ ’’چل تو سکتا ہوں لیکن مجھے آج کی رپورٹ اخبار کو بھیجنی ہے۔‘‘

’’ہاں یہ تو بہت ضروری بات ہے خیر پھر دیکھا جائے گا۔‘‘

’’کیا آپ میرے ساتھ ہوٹل چل سکتی ہیں۔‘‘

’’اس وقت تو معافی چاہتی ہوں، میری سہیلی میرا انتظار کرتی ہوگی۔‘‘ ’’کب تک آپ کو فرصت ہوجائے گی۔‘‘

’’شاید چھ بجے تک۔ آپ کہاں ٹھہرے ہیں؟‘‘

’’گرانڈ ہوٹل میں ۔ تو کیا میں آپ کا ہوٹل میں چھ بجے انتظار کرسکتا ہوں۔ کیا آپ وہاں تشریف لاسکتی ہیں؟‘‘

’’میں ساڑھے چھ بجے تک وہاں آجاؤں گی ، اچھا نمسکار۔‘‘ شیاما نے اپنا ہاتھ انند کی طرف بڑھادیا۔ شیاما سے ہاتھ ملاتے ہی انند کے جسم میں گویا بجلی کی لہر دوڑ گئی، وہ اپنا ہاتھ چھڑا کر آہستہ آہتسہ ایک تانکہ کی طرف بڑھا ۔ خوابوں کی اجڑی ہوئی دنیا پھر ایک مرتبہ آباد ہوگئی۔ وہ شیاما کو اپے دل سے کسی وقت نہ بھلا سکا۔ رپورٹ لکھتے وقت، تار گھر جاتے وقت، وہاں سے واپس ہوکر ہاتھ منھ دھوکر چائے پیتے وقت شیاما برابر اس کی آنکھوں کے سامنے کھڑی رہی گویا وہ ہمیشہ سے اس کے ساتھ ہی رہی تھی۔

مقررہ وقت قریب آگیا۔ انند بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہا تھا۔ کئی مرتبہ وہ ہوٹل سے نیچے اوپر آیا گیا، آخر وہ آگئی۔ ہوٹل کے اوپر والی منزل کے برآمدہ میں شیاما کو آرام کرسی پر بٹھاکر انند اس کی طرف شکایت آمیز نظروں سے دیکھنےلگا، وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن نہ کہہ سکا۔

’’مجھے کچھ دیر ہوگئی، معاف کیجیے گا۔‘‘ شیاما نے محبت آمیز نظروں سے انند کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’آپ تو آگئیں میرے لیے یہی کیاکم ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ شاید آپ نہ آئیں گی۔‘‘

’’یہ کیسے ممکن تھا ۔ آپ مجھے آپ، نہ کہا کیجیے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’یوں ہی، مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘

شیاما سے آنکھیں ملاکر انند نے کہا ۔ ’’مجھے تم سے ایسی ہی امید تھی شیاما۔‘‘

’’کیسی امید؟‘‘

انند نے سنبھل کر کہا۔ ’’مہربانی کی۔‘‘

’’کیا خوب؟ آپ کو باتیں بنانا بہت آتا ہے۔‘‘

’’تھوڑی دیر خاموش رہ کر انند نے کہا، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں لیکن ہمت نہیں پڑتی۔‘‘

’’آپ کو جو کچھ پوچھنا ہے شوق سے پوچھئے میں بتانے کے لیے تیار ہوں۔ صرف ڈر ہے تو اس کا کہ میری باتیں سن کر کہیں آپ مجھ سے نفرت نہ کرنے لگیں۔‘‘ اتنا کہہ کر شیاما نے سرجھکالیا۔

’’تمہارا خیال غلط ہے شیاما! میں اتنا کمزور دل کا نہیں ہوں، زندگی زندگی ہے۔ ماں کے پیٹ سے کوئی قابل بن کر نہیں نکلتا۔ بار بار غلطیوں کی ٹھوکریں کھاکر ہی انسان اوپر کو اٹھتا ہے۔‘‘

شیاما بحر خیال میں غوطے کھانے لگی۔ جس راز کو دنیاسے پوشیدہ رکھنے ہی میں اس کی بہتری تھی اسی راز کو آج کھولنے میں اس کو اپنا فائدہ نظر آیا۔ ڈوبتا ہوا آدمی پانی میں ایک لکڑی کا سہارا پاکر اسے چھوڑدینے کی کبھی ہمت نہیں کرسکتا خواہ وہ لکڑی اسے کنارے سے دور ہی کیوں نہ بہالے جائے۔ بار بار غلطیوں کی ٹھوکریں کھاکر ہی آدمی اوپر کو اٹھتا ہے۔ یہ وہ کئی مرتبہ سن چکی تھی لیکن اس کا اس کے دل پر کوئی خاص اثر نہ ہوا تھامگر آج وہ انند کو سب کچھ بتانے کے لیے تیار ہوگئی۔‘‘

خیالات میں ڈوبی ہوئی شیاما کی طرف دیکھ کر انند نے کہا ’’شیاما! میں تم سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم کون ہو؟‘‘ خیالات کی دنیا سے نکل کر شیاما نے کہا ’’یہ تو میں آپ کو پہلے ہی بتاچکی ہوں۔‘‘

’’لیکن اس سے میری تسلی نہیں ہوئی اور اس سے بھی شاید اب تم کو انکار نہ ہوگا کہ سب کچھ جان لینے کا مجھے حق ہے۔ جب میں نے تم کو پہلے پہل دیکھا تو اسی وقت سے سمجھ گیا تھا کہ تم کوئی معمولی عورت نہیں ہو۔ تمہاری زندگی میں ضرور ایسے حادثے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے تم وہ بن گئی ہو جواس وقت ہو۔ انھیں حادثوں اور واقعات کا حال میں تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں۔‘‘ ایک گہری سانس لے کر شیاما نے کہا ’’آپ میری آپ بیتی سننا ہی چاہتے ہیں تو میں ضرور سناؤں گی لیکن اگر اس سےآپ کو صدمہ ہو تو مجھے الزام نہ دیجیے گا۔‘‘

شیاما کچھ سوچتی رہی پھر اس نے کہنا شروع کیا۔

’’اپنے ماں باپ کی میں اکلوتی اولاد تھی۔ جب میں نے دسویں سال میں قدم رکھا تو میری ماں پرلوک سدھاری۔ میرے والد ایک دفتر میں کلرک تھے، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے، میری تعلیم و ترتیب کی طرف وہ میری ماں سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ لیکن اب تجربہ نے مجھے یہ بتادیا ہے کہ ماں سے بڑھ کر نہ تو کوئی لڑکی کو تعلیم دے سکتا ہے اور نہ ان غلطیوں سے اس کی حفاظت کرسکتا ہے جو زندگی کی راہ میں قدم قدم پر سنہرا جال بجھائے رکھتی ہیں۔ دن میں پاٹ شالہ میں پڑھنے جاتی اور صبح و شام پتاجی خود مجھے پڑھاتے۔ اس طرح سے علمی تعلیم تو مجھے مل گئی لیکن گرہستی کی تعلیم جس کی عورت کو سخت ضرورت رہتی ہے مجھے کچھ بھی نہ مل سکی۔ میں باغ کے اس پودے کی طرح تھی جس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کوئی ہوشیار مالی نہ ہو۔

اسی طرح چار پانچ برس گز گئے۔ میں پاٹ شالہ جاتی رہی، ایک دن اسکول سے لوٹ کر گاڑی سے اترکر جب گلی میں گھسی تو مجھے ایسا معلوم ہوا گویا کوئی میری طرف دیکھ رہا ہے، خواہش ہوئی مڑ کر دیکھوں کہ کون ہے۔ اس وقت اگر میں اس خواہش کو روک سکتی تو شاید میری زندگی کا افسانہ وہ نہ ہوتاجو آج ہے لیکن لڑکپن کی اس خواہش کو میں نہ روک سکی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ ایک پکے مکان کے برآمدہ میں کھڑا ہوا ایک لڑکا میری طرف دیکھ رہا ہے۔ جلدی جلدی قدم بڑھاکر میں اس گلی میں مڑگئی جس میں میرا سنسان گھر تھا۔ اس دن بہت کوشش کرنے پر بھی میرے دل سے اس لڑکے کا خیال نہ گیا۔ جس طرح اس نے مجھے دیکھا تھا پہلے کسی نے نہ دیکھا تھا۔ دوسرے دن پاٹ شالہ سے لوٹ کر گلی میں گھستے ہی میں نے پھر اس کو دیکھا۔ میرے دل میں گدگدی پیدا ہوئی۔ نشہ سا چڑھ گیا۔ سر نیچا کیے آگے بڑھی، برآمدہ کے قریب پہنچتے ہی میرے سامنے کوئی چیز آکر گری۔ میں نے دیکھا کہ ایک رنگین لفافہ ہے۔ اس وقت گلی میں کوئی نہیں تھا، ہمت کرکے میں نےلفافہ اٹھالیا، جدسی سے گھر میں گھسی اور اپنے کمرہ میں جاکر اور کتابوں کا بستہ ایک طرف پھینک کر لفافہ کو پھاڑ کر خط پڑھنے لگی۔ ٹوٹی پھوٹی زبان میں لکھی ہوئی لڑکپن کی وہ پاگل پنے کی باتیں سن کر آپ کو کیا فائدہ ہوگا۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں۔ اس وقت کی باتیں یاد کرکے آج مجھے ہنسی آتی ہے لیکن اس زمانہ میں مجھے وہ خط بہت پیارا معلوم ہوا۔ میں گھنٹوں اسے پڑھتی رہی پھر بڑی رات تک بیٹھ کر میں نے اس کاجواب لکھا۔ میں نے کیا لکھا اسے بھی نہ پوچھئے۔ دوسرے دن پاٹ شالہ جاتے وقت جب دائی کے ساتھ میں اس گلی میں نکلی تو وہ اپنےگھر کے برآمدہ میں پھر کھڑا ملا۔ خط زمین پر گراکر میں جلدی جلدی سڑک پر کھڑی ہوگئی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ گاڑی پر بیٹھ کر میں نے دیکھا کہ وہ خط اٹھاکر جلدی سےاپنے گھر میں گھس گیا۔ اس دن پاٹ شالہ میں میراجی نہ لگا۔ کسی طرح چھٹی کا گھنٹہ بجا۔ دھڑکتے ہوئے دل کو کسی نہ کسی طرح سنبھال کر میں گھرکی طرف چلی، گلی کے سامنے پہنچ کر گاڑی رکی۔ وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ قریب پہنچ کر میں نے اس کی طرف دیکھا، وہ مسکرارہا تھا۔ شرم سے میری آنکھیں نیچے جھک گئیں۔ تب میری زندگی کو تباہ کرنے والا میرے خط کاجواب میرے سامنے آگرا۔ سنتی ہوں گناہ کرنے والے کےسرپر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے، آہ اس وقت میرے سر پر بجلی کیوں نہ کری جب میں اس خط کو اٹھانے کے لیے جھکی۔ اگر اسوقت بھگوان جی مجھ پر دیا کرتے تو میرے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ کیوں لگتا۔ خیر اس خط میں جو کچھ لکھا تھا اس کو سوچ کر آج بھی شرم و ندامت سے میں کانپ اٹھتی ہوں۔ اس دن تو میری عقل ماری گئی، اس خط نے مجھے پاگل بنادیا تھا۔ اس نے رات کو مجھ سے ملاقات کرنےکی استدعا کی تھی میں اس سے ملنے کے لیے تیار ہوگئی اور رات کے سناٹے میں دروازہ کے پاس کھڑے ہوکر میں نے انتظار کیا ۔ کسی نے دروازہ پر تھپکی دی، میں نے دروازہ کھول دیا، وہ آہستہ آہستہ قدم رکھتا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس وقت میرے دل میں جذبات کا طوفان اٹھا ہوا تھا ۔ بس انند بابو آگے کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم دونوں کی خفیہ ملاقات کا سلسلہ بہت دنوں تک جاری رہا۔ ان دنوں میری حالت چوروں کی سی ہوگئی تھی۔ کسی سے کھل کر آنکھیں ملاکر باتیں کرنا میرے لیے مشکل تھا۔ آخرکار اس قسم کی باتوں کا جو کچھ نتیجہ ہوتا ہے۔ وہی ہوا، چوری پکڑی گئی۔ ایک رات جب وہ باہر نکل گیا اور میں دروازہ بند کرنےکو بڑھی تو مجھے ایسا معلوم ہوا گویا میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسک گئی، سامنے پتاجی کھڑے ہوئے تھے غصہ کی ایسی خطرناک صورت میں نے کبھی نہ دیکھی تھی، اس وقت ان کے منھ سے بات نہ نکلتی تھی۔ میرا ہاتھ تھام کر وہ اپنے کمرہ میں کھینچ لے گئے۔ میں کمرہ کے فرش پر گرپڑی، غصہ کی نظروں سے پتاجی میری طرف دیکھنےلگے۔ کتنا اچھا ہوتا اگر میں ان کے غصہ کی آگ میں جل کر خاک ہوجاتی۔ تھوڑی دیر تک وہ مجھے اسی طرح دیکھتے رہے، پھر ان کی بڑی بڑی آنکھوں سےآنسو کی جھڑی لگ گئی۔ آنچل سے منھ کو چھپاکر میں بھی رونےلگی۔ جب غصہ اور نفرت کا جوش کچھ کم ہوا تو پتاجی نے مجھ سے حقیقت دریافت کی۔ میں نے ان سے سب کچھ کہہ دیا۔ بڑی رات تک وہ مجھے نصیحت کرتے رہے۔

دوسرے دن سے میرا اسکول جانا بند ہوگیا۔ گھر میں ایک بوڑھی خادمہ میری حفاظت کرنے لگی۔ اپنی حرکت پر میں نادم تو ضرور تھی لیکن مجھے بدراہ کرنے والے اس نوجوان کی صورت میری آنکھوں سے کسی وقت اوجھل نہ ہوتی تھی۔ ہر گھڑی اسی کا دھیان رہتا۔ اسی کی میٹھی میٹھی باتیں میرے کانوں میں گونجا کرتیں۔ ایک دن جب میری خادمہ باہر گئی ہوئی تھی ایک ادھیڑ عورت میرے گھر میں آئی اور اس نے مجھے موہن کا خط دیا۔ خط میں میرا حال دریافت کیا گیا تھا۔ میں نے فوراً جواب لکھ دیا۔ میرا جواب لے کر وہ عورت چلی گئی اور پھر دوسرے دن وہ موہمن کا خط لائی۔ اس خط کو پڑھ کر میں کانپ اٹھی۔ آج ایک دوسری استدعا تھی جو اس سے پہلے کبھی نہ کی گئی تھی۔ اس استدعا میں جو آزادی کی امید تھی اس نے مجھے پاگل بنادیا۔

اسی دن رات کی تاریکی میں اپنےگہنے اور کپڑے لے کر گھر سے نکل پڑی اور موہن کے ساتھ لکھنؤ پہنچی۔ کان پور سے کچھ دور نہیں، ہم ٹرین سے جلدی پہنچ گئے۔ ہم لکھنؤ میں ایک دھرمشالہ میں ٹھہرے، بعد میں ایک چھوٹا سا مکان لے کر رہنے لگے، موہن محبت تو بہت کرتا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں لکھنؤ پہنچ کر میرے دل میں اس کی جانب سے نفرت پیدا ہونے لگی۔ مجھے ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہ مجھے دل سے پیار نہیں کرتا۔ مجھے گھر کی یاد ستانےلگی، باپ کے گھر میں مجھے جو آرام تھا وہ کہاں نصیب، میں ان کے درشن کے لیے تڑپنے لگی۔ لیکن اپنے ہاتھوں سے پاؤں میں کلہاڑی مار کر پچھتانے سے کیا ہوتا ہے، ہم دونوں جو کچھ ساتھ لائے تھے وہ سب ختم ہوگیا۔ اب روپے کی ضرورت ہوئی۔ ایک دن موہن کام کی تلاش میں صبح سے جوگھر سے نکلا تو پھر وہ واپس نہ آیا۔ میرے چاروں طرف تاریکی تھی، ایک دن میں نے گومتی کی لہروں میں خود کو چھپانے کی کوشش کی تو ایک بھلے آدمی نے مجھے بچالیا اور انھیں کی کوشش سے مجھے ایک پاٹ شالہ میں نوکری مل گئی۔ اس وقت سے میں ایک دھرم شالہ میں رہتی ہوں اور پاٹ شالہ میں لڑکیوں کو پڑھاتی ہوں۔ انند بابو بس یہ ہے میری آپ بیتی۔‘‘ اتنا کہہ کر شیاما نے انند بابو کی طرف دیکھا، اس نے کچھ دیر خاموش رہ کر پوچھا۔

’’پتاجی کا کیا حال ہوا؟‘‘

’’ایک مرتبہ میں نے کان پور جاکر ان کاحال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ گھربار چھوڑ کر کہیں چلے گئے۔‘‘ انند کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھال کر انھوں نے کہا ’’شیاما! تمہاری کہانی درد سے بھری ہوئی ہے۔ مجھے تو حیرت ہے کہ اتنی تکلیف سہہ کر کوئی عورت وہ کیسے بن سکتی ہے جو تم اس وقت ہو۔‘‘ شیاما کا دل کچھ ہلکا ہوگیا۔ انند بابو نے اس سے نفرت نہیں کی۔

’’تمہاری طرح میں بھی اس دنیا میں تنہا ہوں شیاما! اور تمہاری طرح میں نے بھی ٹھوکریں کھائی ہیں۔‘‘

آنکھیں ملاکر شیاما نے کہا ۔ ’’یہ تو میں پہلے ہی سمجھ گئی تھی۔‘‘

چپ رہ کر انند سوچنے لگا کہ کیا جواب دے۔ آخر اس نے دل کو سنبھال کر کہا۔ ’’بنارس میں کب تک رہوگی؟‘‘

’’آپ کب تک رہیں گے؟‘‘

’’میں تو کل یہاں سے چلاجاؤں گا۔‘‘

’’تو میں بھی کل یہاں سے چلی جاؤں گی۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

ٹھنڈی سانس بھر کر شیاما نے کہا ۔ جہاں قسمت لے جائے۔‘‘

شیاما کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی طرف تاکتے ہوئے انند بابو نے کہا ’’کیا تم میرے ساتھ چل سکتی ہو؟‘‘

سر جھکا کر شیاما نے دھیرے سے جواب دیا ۔ ’’بڑی خوشی سے۔‘‘

’’لیکن میں تم کو وہ سب کچھ تو نہ دے سکوں گا جو تمہیں ملنا چاہیے۔‘‘

’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘

’’پھر تو ۔۔۔انند نے شیاما کو اپنی طرف کھینچ لیا اور دائمی محبت کی مہر اس کے لبوں پر لگادی۔ جس نے لڑکپن میں محبت کی ٹھوکر کھائی ہو وہی محبت کی قدر و قیمت سمجھ سکتا ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.