محرومی
by میراجی

میں کہتا ہوں تم سے اگر شام کو بھول کر بھی کسی نے کبھی کوئی دھندلا ستارہ نہ دیکھا
تو اس پر تعجب نہیں ہے نہ ہوگا
ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی ظاہرا بے ضرر شوخ ناگن
ابھرتے ہوئے اور لچکتے ہوئے اور مچلتے ہوئے کہتی جاتی ہے آؤ مجھے دیکھو میں نے
تمہارے لیے ایک رنگین محفل جمائی ہوئی ہے
انوکھا سا ایوان ہے ہر طرف جس میں پردے گرے ہیں وہاں جو بھی ہو اس کو
کوئی نہیں دیکھ سکتا
تہیں اس کے پردوں کی ایسے لچکتی چلی جاتی ہیں جیسے پھیلی ہوئی سطح دریا نے
اٹھ کر دھندلکے کی مانند پنہاں کیا ہو فضا کو نظر سے
ذرا دیکھو چھت پر لٹکتے ہیں فانوس اپنی ہر اک نیم روشن کرن سے سجھاتے
ہیں اک بھید کی بات کا گیت جس میں مسہری کے آغوش کی لرزشیں ہوں
ستونوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ رکتا ہوا اور جھجکتا ہوا چور سایہ یہی کہہ رہا
ہے وہ آئے وہ آئے
ابھی ایک پل میں اچانک یونہی جگمگانے لگے گا یہ ایوان یکسر
ہر اک چیز کیسے قرینے سے رکھی ہوئی ہے
میں کہتی ہوں مانو چلو آؤ محفل سجی ہے
تم آؤ تو گونج اٹھے شہنائی دالان میں آنے جانے کی آہٹ سے ہنگامہ پیدا
ہو لیکن مسہری کے آغوش کی لرزشوں میں تمہیں اس کا احساس
بھی ہونے پائے تو ذمہ ہے میرا
ازل سے اس ڈھب کی پابند ہے موج بیتاب اس کو خبر بھی نہ ہوگی کہ اک شاخ نازک
نے بے باک جھونکے سے ٹکرا کے آہیں بھری تھیں
مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے اگر شاد کو بھول کر بھی کسی نے کبھی کوئی دھندلا ستارہ
نہ دیکھا تو اس پر تعجب نہیں ہے
ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی شوخ ناگن
یہ ڈستی ہے ڈستے ہوئے کہتی جاتی ہے
جاؤ اگر تم جھجکتے رہوگے تو
ہر لمحہ یکساں روش سے گزر جائے گا اور تم دیکھتے ہی رہوگے اکیلے اکیلے
تمہیں دائیں بائیں تمہیں سامنے کچھ دکھائی نہ دے گا فقط سرد دیواریں ہنستی رہیں گی
مگر ان کا ہنسنا بھی آہستہ آہستہ بیتے زمانے کی مانند اک دور کی بات معلوم ہونے لگے گا
دھندلکے میں ڈوبی ہوئی آنکھ دیکھے گی روزن سے دور اک ستارہ نظر آ رہا ہے
مگر چھت پہ فانوس کا کوئی جھولا نہ ہوگا
شکستہ فتادہ ستونوں کی مانند فرش حزیں پر تمہارا وہ سایہ تڑپتا رہے گا جسے
یہ تمنا تھی کہہ دوں تمنا کیا تھی
بس اب اپنی غم ناک باتوں کو اپنے ابھرتے ہوئے اور بدلتے ہوئے رنگ میں تو چھپا لے
میں اب مانتا ہوں کہ تو نے روانی میں اپنی بہت دور روزن سے دھندلے
ستارے بھی دیکھے ہیں لاکھوں
میں اب مانتا ہوں مری آنکھ میں ایک آنسو جھلکتا چلا جا رہا ہے ٹپکتا نہیں ہے
میں اب مانتا ہوں مجھے دائیں بائیں مجھے سامنے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے فقط
سرد دیواریں ہنستی چلی جا رہی ہیں
میں اب مانتا ہوں کہ میں نے اس ایوان کو آج تک اپنے خوابوں میں دیکھا ہے لیکن
وہاں کوئی بھی چیز ایسے قرینے سے رکھی نہیں ہے
کہ جیسے بتایا ہے تو نے تری ایک رنگین محفل سجی ہے
مسہری کے آغوش کی لرزشوں کا مجھے خواب بھی اب نہ آئے گا میں اپنے
کانوں سے کیسے سنوں گا وہ شہنائی کی گونج سیندور
کا سرخ نغمہ جسے سن کے دالان میں آنے جانے کی آہٹ
سے ہنگامہ ہو جاتا ہے ایک پل کو
مجھے تو فقط سرد دیواریں ہنستی سنائی دیے جا رہی ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse