محروم طرب ہے دل دلگیر ابھی تک
محروم طرب ہے دل دلگیر ابھی تک
باقی ہے ترے عشق کی تاثیر ابھی تک
وصل اس بت بد خو کا میسر نہیں ہوتا
وابستۂ تقدیر ہے تدبیر ابھی تک
اک بار سنی تھی سو مرے دل میں ہے موجود
اے جان تمنا تری تقریر ابھی تک
سیکھی تھی جو آغاز محبت میں قلم نے
باقی ہے وہ رنگینئ تحریر ابھی تک
اس درجہ نہ بیتاب ہو اے شوق شہادت
ہے میان میں اس شوخ کی شمشیر ابھی تک
کہنے کو تو میں بھول گیا ہوں مگر اے یار
ہے خانۂ دل میں تری تصویر ابھی تک
بھولی نہیں دل کو تری دزدیدہ نگاہی
پہلو میں ہے کچھ کچھ خلش تیر ابھی تک
تھے حق پہ وہ بے شک کہ نہ ہوتے تو نہ ہوتا
دنیا میں بپا ماتم شبیرؔ ابھی تک
گزرے بہت استاد مگر رنگ اثر میں
بے مثل ہے حسرتؔ سخن میرؔ ابھی تک
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |