محفل میں ہم تھے اس طرف وہ شوخ چنچل اس طرف

محفل میں ہم تھے اس طرف وہ شوخ چنچل اس طرف
by نظیر اکبر آبادی
315951محفل میں ہم تھے اس طرف وہ شوخ چنچل اس طرفنظیر اکبر آبادی

محفل میں ہم تھے اس طرف وہ شوخ چنچل اس طرف
تھی سادہ لوحی اس طرف مکر و فسوں چھل اس طرف

بیٹھے ہم اپنے دھیان میں بیٹھا وہ اپنی آن میں
فکر نظارہ اس طرف مکھڑے پر آنچل اس طرف

کیا کیا دکھاتی ہے الم کیا کیا رکھے ہے پیچ و خم
آہوں کی شورش اس طرف زلف مسلسل اس طرف

ہم دے کے دل ہیں رنج کش وہ لے کے دل ہے جی میں خوش
بے تابیٔ جاں اس طرف راحت خوشی کل اس طرف

آج اس سے ملنے کو نظیرؔ احوال ہے دل کا عجب
ہم کھینچتے ہیں اس طرف کہتا ہے وہ چل اس طرف


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.