محمودہ (1955)
by سعادت حسن منٹو
325059محمودہ1955سعادت حسن منٹو

مستقیم نے محمودہ کو پہلی مرتبہ اپنی شادی پر دیکھا۔ آر سی مصحف کی رسم ادا ہورہی تھی کہ اچانک اس کو دو بڑی بڑی۔۔۔ غیر معمولی طور پر بڑی آنکھیں دکھائی دیں۔۔۔ یہ محمودہ کی آنکھیں تھیں جو ابھی تک کنواری تھیں۔

مستقیم، عورتوں اور لڑکیوں کے جھرمٹ میں گھرا تھا۔۔۔ محمودہ کی آنکھیں دیکھنے کے بعد اسے قطعاً محسوس نہ ہوا کہ آر سی مصحف کی رسم کب شروع ہوئی اور کب ختم ہوئی۔ اس کی دلہن کیسی تھی، یہ بتانے کے لیے اس کو موقع دیا گیا تھا مگر محمودہ کی آنکھیں اس کی دلہن اور اس کے درمیان ایک سیاہ مخملیں پردے کے مانندحائل ہوگئیں۔

اس نے چوری چوری کئی مرتبہ محمودہ کی طرف دیکھا۔ اس کی ہم عمر لڑکیاں سب چہچہا رہی تھی۔ مستقیم سے بڑے زوروں پر چھیڑ خانی ہورہی تھی مگر وہ الگ تھلگ، کھڑکی کے پاس گھٹنوں پر ٹھوڑی جمائے، خاموش بیٹھی تھی۔

اس کا رنگ گورا تھا۔ بال تختیوں پر لکھنے والی سیاہی کے مانند کالے اور چمکیلے تھے۔ اس نے سیدھی مانگ نکال رکھی تھی جو اس کے بیضوی چہرے پر بہت سجتی تھی۔مستقیم کا اندازہ تھا کہ اس کا قدچھوٹا ہے چنانچہ جب وہ اٹھی تو اس کی تصدیق ہوگئی۔ لباس بہت معمولی قسم کا تھا۔ دوپٹہ جب اس کے سر سے ڈھلکا اور فرش تک جا پہنچا تو مستقیم نے دیکھا کہ اس کا سینہ بہت ٹھوس اور مضبوط تھا۔ بھرابھرا جسم، تیکھی ناک، چوڑی پیشانی، چھوٹا سا لبِ دہان۔۔۔ اور آنکھیں۔۔۔ جو دیکھنے والے کو سب سے پہلے دکھائی دیتی تھی۔

مستقیم اپنی دلہن گھر لے آیا۔ دو تین مہینے گزر گئے۔ وہ خوش تھا، اس لیے کہ اس کی بیوی خوبصورت اور باسلیقہ تھی۔۔۔ لیکن وہ محمودہ کی آنکھیں ابھی نہیں بھول سکا تھا۔ اس کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اس کی دل و دماغ پر مرتسم ہوگئی ہیں۔مستقیم کو محمودہ کا نام معلوم نہیں تھا۔۔۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی، کلثوم سے برسبیل تذکرہ پوچھا۔’’وہ۔۔۔ وہ لڑکی کون تھی ہماری شادی پر۔۔۔ جب آر سی مصحف کی رسم ادا ہورہی تھی، وہ ایک کونے میں کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔‘‘

کلثوم نے جواب دیا، ’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔۔ اس وقت کئی لڑکیاں تھیں۔ معلوم نہیں آپ کس کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔‘‘ مستقیم نے کہا، ’’وہ۔۔۔ وہ جس کی یہ بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔‘‘ کلثوم سمجھ گئی، ’’اوہ۔۔۔ آپ کا مطلب محمودہ سے ہے۔۔۔ ہاں، واقعی اس کی آنکھیں بہت بڑی ہیں، لیکن بری نہیں لگتیں۔۔۔ غریب گھرانے کی لڑکی ہے۔ بہت کم گو اور شریف۔۔۔ کل ہی اس کی شادی ہوئی ہے۔‘‘

مستقیم کو غیر ارادی طور پر ایک دھچکا سا لگا، ’’اس کی شادی ہوگئی کل؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ میں کل وہیں تو گئی تھی۔۔۔ میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ میں نے اس کو ایک انگوٹھی دی ہے؟‘‘

’’ہاں ہاں۔۔۔ مجھے یاد آگیا۔۔۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم جس سہیلی کی شادی پر جا رہی ہو، وہی لڑکی ہے، بڑی بڑی آنکھوں والی۔۔۔ کہاں شادی ہوئی ہے اس کی؟‘‘

کلثوم نے گلوری بنا کر اپنے خاوند کو دیتے ہوئے کہا، ’’اپنے عزیزوں میں۔۔۔ خاوند اس کا ریلوے ورکشاپ میں کام کرتا ہے، ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تنخواہ ہے۔۔۔ سنا ہے بے حد شریف آدمی ہے۔‘‘ مستقیم نے گلوری کلّے کے نیچے دبائی، ’’چلو،اچھا ہوگیا ۔۔۔ لڑکی بھی، جیسا کہ تم کہتی ہو، شریف ہے۔‘‘ کلثوم سے نہ رہاگیا،اسے تعجب تھاکہ اس کا خاوندمحمودہ میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے، ’’حیرت ہے کہ آپ نے اس کو محض ایک نظر دیکھنے پر بھی یاد رکھا۔‘‘

مستقیم نے کہا، ’’اس کی آنکھیں کچھ ایسی ہیں کہ آدمی انھیں بھول نہیں سکتا۔۔۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں؟‘‘ کلثوم دوسرا پان بنا رہی تھی۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد وہ اپنے خاوند سے مخاطب ہوئی، ’’میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتی۔ مجھے تو اس کی آنکھوں میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔۔۔ مرد جانے کن نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔‘‘

مستقیم نے مناسب خیال کیاکہ اس موضوع پر اب مزید گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ چنانچہ جواب میں مسکرا کروہ اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ اتوار کی چھٹی تھی۔ حسب معمول اسے اپنی بیوی کے ساتھ میٹنی شو دیکھنے جانا چاہیے تھا، مگر محمودہ کا ذکر چھیڑ کر اس نے اپنی طبیعت مکدر کرلی تھی۔

اس نے آرام کرسی پر لیٹ کرتپائی پر سے ایک کتاب اٹھائی جسے وہ دو مرتبہ پڑھ چکا تھا۔ پہلا ورق نکالا اور پڑھنے لگا، مگر حرف گڈمڈ ہوکر محمودہ کی آنکھیں بن جاتے۔ مستقیم نے سوچا، ’’شاید کلثوم ٹھیک کہتی تھی کہ اسے محمودہ کی آنکھوں میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔۔۔ ہو سکتا ہے کسی اور مرد کو بھی نظر نہ آئے۔ایک صرف میں ہوں جسے دکھائی دی ہے۔۔۔ پر کیوں۔۔۔ میں نے ایسا کوئی ارادہ نہیں کیا تھا۔۔۔ میری ایسی کوئی خواہش نہیں تھی کہ وہ میرے لیے پرکشش بن جائیں۔۔۔ ایک لحظے کی تو بات تھی۔ بس میں نے ایک نظر دیکھا اور وہ میرے دل ودماغ پر چھا گئیں۔ اس میں نہ ان آنکھوں کا قصور ہے، نہ میری آنکھوں کا جن سے میں نے انھیں دیکھا تھا۔‘‘

اس کے بعد مستقیم نے محمودہ کی شادی کے متعلق سوچنا شروع کیا، ’’تو ہوگئی اس کی شادی۔۔۔چلو اچھا ہوا۔۔۔ لیکن دوست یہ کیا بات ہے کہ تمہارے دل میں ہلکی سی ٹیس اٹھتی ہے۔۔۔ کیا تم چاہتے تھے کہ اس کی شادی نہ ہو۔۔۔ سدا کنواری رہے، کیوں کہ تمہارے دل میں اس سے شادی کرنے کی خواہش تو کبھی پیدا نہیں ہوئی، تم نے اس کے متعلق کبھی ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سوچا، پھر جلن کیسی۔۔۔ اتنی دیر تمہیں اسے دیکھنے کا کبھی خیال نہ آیا، پر اب تم کیوں اسے دیکھنا چاہتے ہو۔۔۔ بفرض محال دیکھ بھی لو تو کیا کرلو گے، اسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لو گے۔۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں نوچ کر اپنے بٹوے میں ڈال لو گے۔۔۔ بولونا، کیا کرو گے؟‘‘ مستقیم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اصل میں اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اگر کچھ چاہتا بھی ہے تو کیوں چاہتا ہے۔

محمودہ کی شادی ہو چکی تھی، اور وہ بھی صرف ایک روز پہلے۔ یعنی اس وقت جب کہ مستقیم کتاب کی ورق گردانی کرہا تھا، محمودہ یقیناً دلہنوں کے لباس میں یا تو اپنے میکے یا اپنی سسرال میں شرمائی لجائی بیٹھی تھی۔۔۔ وہ خود شریف تھی، اس کا شوہر بھی شریف تھا، ریلوے ورکشاپ میں ملازم تھا اور ڈیڑھ سو روپے ماہوار تنخواہ پاتا تھا۔۔۔ بڑی خوشی کی بات تھی۔ مستقیم کی دلی خواہش تھی کہ وہ خوش رہے۔۔۔ ساری عمر خوش رہے۔۔۔ لیکن اس کے دل میں جانے کیوں ایک ٹیس سی اٹھتی تھی اور اسے بے قرار بنا جاتی تھی۔

مستقیم آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب بکواس ہے۔ اسے محمودہ کے متعلق قطعاً سوچا نہیں چاہیے۔۔۔ دو برس گزر گئے۔ اس دوران میں اسے محمودہ کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوا اور نہ اس نے معلوم کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ وہ اور اس کا خاوند بمبئی میں ڈونگری کی ایک گلی میں رہتے تھے۔۔۔ مستقیم گو ڈونگری سے بہت دور ماہم میں رہتا تھا، لیکن اگر وہ چاہتا تو بڑی آسانی سے محمودہ کو دیکھ سکتا تھا۔

ایک دن کلثوم ہی نے اس سے کہا، ’’آپ کی اس بڑی بڑی آنکھوں والی محمودہ کے نصیب بہت برے نکلے!‘‘چونک کر مستقیم نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا،’’ کیوں کیا ہوا؟ ‘‘کلثوم نے گلوری بناتےہوئے کہا،’’ اس کا خاوند ایک دم مولوی ہوگیا ہے۔‘‘ ’’تو اس سے کیا ہوا؟‘‘

’’آپ سن تو لیجیے۔۔۔ ہر وقت مذہب کی باتیں کرتا رہتا ہے۔۔۔ لیکن بڑی اوٹ پٹانگ قسم کی۔ وظیفے کرتا ہے، چلے کاٹتا ہے اور محمودہ کو مجبورکرتا ہے کہ وہ بھی ایسا کرے۔ فقیروں کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہتا ہے۔ گھر بار سے بالکل غافل ہوگیا ہے۔ داڑھی بڑھالی ہے۔ ہاتھ میں ہر وقت تسبیح ہوتی ہے۔ کام پر کبھی جاتا ہے، کبھی نہیں جاتا۔۔۔ کئی کئی دن غائب رہتا ہے۔۔۔ وہ بے چاری کڑھتی رہتی ہے۔ گھر میں کھانے کو کچھ ہوتا نہیں، اس لیے فاقے کرتی ہے۔ جب اس سے شکایت کرتی ہے تو آگے سے جواب یہ ہوتا ہے۔۔۔ فاقہ کشی اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت پیاری ہے۔‘‘ کلثوم نے یہ سب کچھ ایک سانس میں کہا۔

مستقیم نے پندنیا میں سے تھوڑی سی چھالیا اٹھا کر منہ میں ڈالی،’’کہیں دماغ تو نہیں چل گیا اس کا؟ ‘‘کلثوم نے کہا،’’ محمودہ کا تو یہی خیال ہے۔۔۔ خیال کیا، اس کو یقین ہے۔ گلے میں بڑے بڑے منکوں والی مالا ڈالے پھرتا ہے۔ کبھی کبھی سفید رنگ کا چولا بھی پہنتا ہے۔ ‘‘مستقیم گلوری لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور آرام کرسی میں لیٹ کر سوچنے لگا،’’ یہ کیا ہوا۔۔۔ ایسا شوہر تو وبال جان ہوتا ہے۔۔۔ غریب کس مصیبت میں پھنس گئی ہے۔

میرا خیال ہے کہ پاگل پن کے جراثیم اس کے شوہر میں شروع ہی سے موجود ہوں گے جو اب ایک دم ظاہر ہوئے ہیں۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب محمودہ کیا کرے گی۔ اس کا یہاں کوئی رشتہ دار بھی نہیں۔ کچھ شادی کرنے لاہور سے آئے تھے اور واپس چلے گئے تھے۔۔۔ کیا محمودہ نے اپنے والدین کو لکھا ہوگا۔۔۔ نہیں، اس کے ماں باپ تو جیسا کہ کلثوم نے ایک مرتبہ کہا تھا اس کے بچپن ہی میں مرگئے تھے۔ شادی اس کے چچا نے کی تھی۔ ڈونگری۔۔۔ ڈونگری میں شاید اس کی جان پہچان کا کوئی ہو۔۔۔ نہیں، جان پہچان کا کوئی ہوتا تو وہ فاقے کیوں کرتی۔۔۔ کلثوم کیوں نہ اسے اپنے یہاں لے آئے۔۔۔ پاگل ہوئے ہو مستقیم۔۔۔ ہوش کے ناخن لو۔‘‘

مستقیم نے ایک بار پھر ارادہ کرلیا کہ وہ محمودہ کے متعلق نہیں سوچے گا، اس لیے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا، بے کار کی مغز پاشی تھی۔ بہت دنوں کے بعد کلثوم نے ایک روز اسے بتایا کہ محمودہ کا شوہر جس کا نام جمیل تھا، قریب قریب پاگل ہوگیا ہے۔ مستقیم نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘ کلثوم نے جواب دیا، ’’مطلب یہ کہ اب وہ رات کو ایک سیکنڈ کے لیے نہیں سوتا۔ جہاں کھڑا ہے، بس وہیں گھنٹوں خاموش کھڑا رہتا ہے۔۔۔ محمودہ غریب روتی رہتی ہے۔۔۔ میں کل اس کے پاس گئی تھی۔ بے چاری کو کئی دن کا فاقہ تھا۔ میں بیس روپے دے آئی کیوں کہ میرے پاس اتنے ہی تھے۔‘‘

مستقیم نے کہا، ’’بہت اچھا کیا تم نے۔۔۔ جب تک اس کا خاوند ٹھیک نہیں ہوتا، کچھ نہ کچھ دے آیا کرو تاکہ غریب کو فاقوں کی نوبت نہ آئے۔‘‘ کلثوم نے تھوڑے توقف کے بعد عجیب وغریب لہجے میں کہا، ’’اصل میں بات کچھ اور ہے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’محمودہ کا خیال ہے کہ جمیل نے محض ایک ڈھونگ رچا رکھا ہے۔ وہ پاگل واگل ہرگز نہیں۔۔۔ بات یہ ہے کہ وہ۔۔۔‘‘

’’وہ کیا؟‘‘

’’وہ۔۔۔عورت کے قابل نہیں۔۔۔ نقص دور کرنے کے لیے وہ فقیروں اور سنیاسیوں سے ٹونے ٹوٹکے لیتا رہتا ہے۔‘‘

مستقیم نے کہا، ’’یہ بات تو پاگل ہونے سے زیادہ افسوس ناک ہے۔۔۔ محمودہ کے لیے تو یہ سمجھو کہ ازدواجی زندگی ایک خلا بن کر رہ گئی ہے۔‘‘

مستقیم اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ بیٹھ کر محمودہ کی حالت زار کے متعلق سوچنے لگا۔ ایسی عورت کی زندگی کیا ہوگی جس کا شوہر بالکل صفر ہو۔ کتنے ارمان ہوں گے اس کے سینے میں۔ اس کی جوانی نے کتنے کپکپا دینے والے خواب دیکھے ہوں گے۔ اس نے اپنی سہیلیوں سے کیا کچھ نہیں سنا ہوگا۔۔۔ کتنی ناامیدی ہوئی ہوگی غریب کو، جب اسے چاروں طرف خلا ہی خلا نظر آیا ہوگا۔۔۔ اس نے اپنی گود ہری ہونے کے متعلق بھی کئی بار سوچا ہوگا۔۔۔ جب ڈونگری میں کسی کے ہاں بچہ پیدا ہونے کی اطلاع اسے ملتی ہوگی تو بے چاری کے دل پر ایک گھونسا سا لگتا ہوگا۔۔۔اب کیا کرے گی۔۔۔ ایسا نہ ہو خود کشی کرلے۔۔۔ دو برس تک اس نے کسی کو یہ راز نہ بتایا مگر اس کا سینہ پھٹ پڑا۔ خدا اس کے حال پر رحم کرے!‘‘

بہت دن گزر گئے۔ مستقیم اور کلثوم چھٹیوں میں پنچ گنی چلے گئے۔ وہاں ڈھائی مہینے رہے۔ واپس آئے تو ایک مہینے کے بعد کلثوم کے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔۔۔ وہ محمودہ کے ہاں نہ جاسکی۔ لیکن ایک دن اس کی ایک سہیلی جو محمودہ کو جانتی تھی، اس کو مبارک باد دینے کے لیے آئی۔ اس نے باتوں باتوں میں کلثوم سے کہا، ’’کچھ سنا تم نے۔۔۔ وہ محمودہ ہے نا، بڑی بڑی آنکھوں والی!‘‘

کلثوم نے کہا، ’’ہاں ہاں۔۔۔ ڈونگری میں رہتی ہے۔‘‘

’’خاوند کی بے پروائی نے غریب کو بری باتوں پر مجبور کردیا۔‘‘ کلثوم کی سہیلی کی آواز میں درد تھا۔ کلثوم نے بڑے دکھ سے پوچھا، ’’کیسی بری باتوں پر؟‘‘

’’اب اس کے یہاں غیر مردوں کا آنا جانا ہوگیا ہے۔‘‘

’’جھوٹ!‘‘ کلثوم کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ کلثوم کی سہیلی نے کہا،’’نہیں کلثوم، میں جھوٹ نہیں کہتی۔۔۔ میں پرسوں اس سے ملنے گئی تھی۔ دروازے پر دستک دینے ہی والی تھی کہ اندر سے ایک نوجوان مرد جو میمن معلوم ہوتا تھا، باہر نکلا اور تیزی سے نیچے اتر گیا۔ میں نے اب اس سے ملنا مناسب نہ سمجھا اور واپس چلی آئی۔‘‘

’’یہ تم نے بہت بری خبر سنائی۔۔۔ خدا اس کو گناہ کے راستے سے بچائے رکھے۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ میمن اس کے خاوند کا کوئی دوست ہو۔‘‘ کلثوم نے خود کو فریب دیتے ہوئے کہا۔اس کی سہیلی مسکرائی، ’’دوست، چوروں کی طرح دروازہ کھول کر بھاگا نہیں کرتے۔‘‘ کلثوم نے اپنے خاوند سے بات کی تو اسے بہت دکھ ہوا۔ وہ کبھی رویا نہیں تھا پر جب کلثوم نے اسے یہ اندوہ ناک بات بتائی کہ محمودہ نے گناہ کا راستہ اختیار کرلیا ہے تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے اسی وقت تہیہ کرلیا کہ محمودہ ان کے یہاں رہے گی، چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’’یہ بڑی خوف ناک بات ہے۔۔۔ تم ایسا کرو، ابھی جاؤ اورمحمودہ کو یہاں لے آؤ!‘‘

کلثوم نے بڑے روکھے پن سے کہا، ’’میں اسے اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ مستقیم کے لہجے میں حیرت تھی۔

’’بس، میری مرضی۔۔۔ وہ میرے گھرمیں کیوں رہے۔۔۔ اس لیے کہ آپ کو اس کی آنکھیں پسند ہیں؟‘‘ کلثوم کے بولنے کا انداز بہت زہریلا اور طنزیہ تھا۔مستقیم کو بہت غصہ آیا، مگر پی گیا۔ کلثوم سے بحث کرنا بالکل فضول تھا۔ ایک صرف یہی ہو سکتا تھا کہ وہ کلثوم کو نکال کر محمودہ کو لے آئے۔۔۔ مگر وہ ایسے اقدام کے متعلق سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ مستقیم کی نیت قطعاً نیک تھی۔ اس کو خود اس کا احساس تھا۔ دراصل اس نے کسی گندے زاویہ نگاہ سے محمودہ کو دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔ البتہ اس کی آنکھیں اس کو واقعی پسند تھیں۔ اتنی کہ وہ بیان نہیں کرسکتا تھا۔

وہ گناہ کا راستہ اختیار کر چکی تھی۔ ابھی اس نے صرف چند قدم ہی اٹھائے تھے۔ اس کو تباہی کے غار سے بچایا جاسکتا تھا۔۔۔مستقیم نے کبھی نماز نہیں پڑھی تھی، کبھی روزہ نہیں رکھاتھا، کبھی خیرات نہیں دی تھی۔۔۔ خدا نے اس کو کتنا اچھا موقع دیا تھا کہ وہ محمودہ کو گناہ کے رستے پر سے گھسیٹ کر لے آئے اور طلاق وغیرہ دلوا کر اس کی کسی اور سے شادی کرادے۔۔۔ مگر وہ یہ ثواب کا کام نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے کہ وہ بیوی کا دبیل تھا۔

بہت دیر تک مستقیم کا ضمیر اس کو سرزنش کرتا رہا۔ ایک دو مرتبہ اس نے کوشش کہ اس کی بیوی رضا مندہو جائے۔ مگر جیسا کہ مستقیم کو معلوم تھا، ایسی کوششیں لا حاصل تھیں۔ مستقیم کا خیال تھا کہ اور کچھ نہیں تو کلثوم، محمودہ سے ملنے ضرور جائے گی۔ مگر اس کو ناامیدی ہوئی۔ کلثوم نے اس روز کے بعد محمودہ کا نام تک نہ لیا۔

اب کیا ہوسکتا تھا۔۔۔ مستقیم خاموش رہا۔

قریب قریب دو برس گزر گئے۔ ایک دن گھر سے نکل کر مستقیم ایسے ہی تفریحاً فٹ پاتھ پر چہل قدمی کررہا تھا کہ اس نے قصائیوں کی بلڈنگ کی گراؤنڈ فلور کی کھولی کے باہر، تھڑے پر محمودہ کی آنکھوں کی جھلک دیکھی۔مستقیم دو قدم آگے نکل گیا تھا۔ فوراً مڑ کر اس نے غور سے دیکھا۔۔۔ محمودہ ہی تھی۔ وہی بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ وہ ایک یہودن کے ساتھ جو اس کھولی میں رہتی تھی، باتیں کرنے میں مصروف تھی۔

اس یہودن کو سارا ماہم جانتا تھا۔ ادھیڑ عمرکی عورت تھی۔ اس کا کام عیاش مردوں کے لیے جوان لڑکیاں مہیا کرنا تھا۔ اس کی اپنی دو جوان لڑکیاں تھیں جن سے وہ پیشہ کرواتی تھی۔۔۔ مستقیم نے جب محمودہ کا چہرہ نہایت ہی بے ہودہ طور پر میک اپ کیا ہوا دیکھا تو وہ لرز اٹھا۔ زیادہ دیر تک یہ اندوہ ناک منظر دیکھنے کی تاب اس میں نہیں تھی۔۔۔ وہاں سے فوراً چل دیا۔

گھر پہنچ کر اس نے کلثوم سے اس واقعے کا ذکر نہ کیا۔۔۔ کیوں کہ اس کی اب ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ محمودہ اب مکمل عصمت فروش عورت بن چکی تھی۔۔۔ مستقیم کے سامنے جب بھی اس کا بے ہودہ اور فحش طور پر میک اپ کیا ہوا چہرہ آتا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔اس کا ضمیر اس سے کہتا، ’’مستقیم! جو کچھ تم نے دیکھا ہے، اس کا باعث تم ہو۔۔۔ کیا ہوا تھا اگرتم اپنی بیوی کی چند روزہ ناراضی اور خفگی برداشت کرلیتے۔ زیادہ سے زیادہ وہ غصے میں آکر اپنے میکے چلی جاتی۔۔۔ مگر محمودہ کی زندگی اس گندگی سے تو بچ جاتی جس میں وہ اس وقت دھنسی ہوئی ہے۔۔۔کیا تمہاری نیت نیک نہیں تھی۔۔۔ اگر تم سچائی پر تھے اور سچائی پر رہتے تو کلثوم ایک نہ ایک دن اپنے آپ ٹھیک ہو جاتی۔۔۔ تم نے بڑا ظلم کیا۔۔۔ بہت بڑا گناہ کیا۔‘‘

مستقیم اب کیا کرسکتا تھا۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ پانی سر سے گزر چکا تھا۔ چڑیاں سارا کھیت چگ گئی تھیں۔اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ مرتے ہوئے مریض کو دم آخر آکسیجن سنگھانے والی بات تھی۔تھوڑے دنوں کے بعد بمبئی کی فضا فرقہ وارانہ فسادات کے باعث بڑی خطرناک ہوگئی۔ بٹوارے کے باعث ملک کے طول و عرض میں تباہی اور غارت گری کا بازار گرم تھا۔ لوگ دھڑادھڑ ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جارہے تھے۔ کلثوم نے مستقیم کو مجبور کیا کہ وہ بھی بمبئی چھوڑ دے۔۔۔ چنانچہ جو پہلا جہاز ملا، اس کی سیٹیں بک کراکے میاں بیوی کراچی پہنچ گئے اور چھوٹا موٹا کاروبارشروع کردیا۔

ڈھائی برس کے بعد یہ کاروبار ترقی کرگیا، اس لیے مستقیم نے ملازمت کا خیال ترک کردیا۔۔۔ ایک روز شام کو دکان سے اٹھ کر وہ ٹہلتا ٹہلتا صدر جا نکلا۔۔۔ جی چاہا کہ ایک پان کھائے۔ بیس تیس قدم کے فاصلے پر اسے ایک دکان نظر آئی جس پر کافی بھیڑ تھی۔ آگے بڑھ کر وہ دکان کے پاس پہنچا۔۔۔ کیا دیکھتا ہے کہ محمودہ پان لگا رہی ہے۔ جھلسے ہوئے چہرے پر اسی قسم کا فحش میک اپ تھا۔ لوگ اسے گندے گندے مذاق کررہے ہیں اور وہ ہنس رہی ہے۔۔۔مستقیم کے ہوش وہ حواس غائب ہوگئے۔ قریب تھا کہ وہاں سے بھاگ جائے کہ محمودہ نے اسے پکارا، ’’ادھر آؤ دلہا میاں۔۔۔ تمہیں ایک فسٹ کلاس پان کھلائیں۔۔۔ ہم تمہاری شادی میں شریک تھے۔ مستقیم بالکل پتھرا گیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.