محو رخ یار ہو گئے ہم
محو رخ یار ہو گئے ہم
سو جی سے نثار ہو گئے ہم
فتراک سے باندھ خواہ مت باندھ
اب تیرے شکار ہو گئے ہم
دامن کو نہ پہنچے تیرے اب تک
ہر چند غبار ہو گئے ہم
آتا نہیں کوئی اب نظر میں
کس سے یہ دو چار ہو گئے ہم
تھا کون کہ دیکھتے ہی جس کے
یوں عاشق زار ہو گئے ہم
ہستی ہی حجاب تھی جو دیکھا
اس بحر سے پار ہو گئے ہم
بیدارؔ سرشک لالہ گوں سے
ہم چشم بہار ہو گئے ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |