مدعی اس سے سخن ساز بہ سالوسی ہے
مدعی اس سے سخن ساز بہ سالوسی ہے
پھر تمنا کو یہاں مژدۂ مایوسی ہے
میری ہی طرح جگر خوں ہے ترا مدت سے
اے حنا کس کی تجھے خواہش پا بوسی ہے
آہ اے کثرت داغ غم خوباں کہ مدام
صفحۂ سینہ پر از جلوۂ طاؤسی ہے
تہمت عشق عبث کرتے ہیں مجھ کو منتؔ
ہاں یہ سچ ملنے کی خوباں سے تو اک خو سی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |