مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے
مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے
کہ ہر جلوے میں اس کے کیا کہوں اور ہی جھمکا ہے
نہیں ہونے کا چنگا گر سلیمانی لگے مرہم
ہمارے دل پہ کاری زخم اس ناوک پلک کا ہے
کئی باری بنا ہو جس کی پھر کہتے ہیں ٹوٹے گا
یہ حرمت جس کی ہو اے شیخ کیا تیرا وہ مکا ہے
ہر اک دل کے تئیں لے کر وہ چنچل بھاگ جاتا ہے
ستم گر ہے جفا جو ہے شرابی ہے اچکا ہے
نہ جا واعظ کی باتوں پر ہمیشہ مے کو پی تاباںؔ
عبث ڈرتا ہے تو دوزخ سے اک شرعی درکا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |