مرا راز دل آشکارا نہیں
مرا راز دل آشکارا نہیں
وہ دریا ہوں جس کا کنارا نہیں
وہ گل ہوں جدا سب سے ہے جس کا رنگ
وہ بو ہوں کہ جو آشکارا نہیں
وہ پانی ہوں شیریں نہیں جس میں شور
وہ آتش ہوں جس میں شرارہ نہیں
بہت زال دنیا نے دیں بازیاں
میں وہ نوجواں ہوں جو ہارا نہیں
جہنم سے ہم بے قراروں کو کیا
جو آتش پہ ٹھہرے وہ پارا نہیں
فقیروں کی مجلس ہے سب سے جدا
امیروں کا یاں تک گزارا نہیں
سکندر کی خاطر بھی ہے سد باب
جو دارا بھی ہو تو مدارا نہیں
کسی نے تری طرح سے اے انیسؔ
عروس سخن کو سنوارا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |