مرا یہ زخم سینہ کا کہیں بھرتا ہے سینے سے
مرا یہ زخم سینہ کا کہیں بھرتا ہے سینے سے
لگائے اے صنم جب تک نہ تو سینہ کو سینے سے
فلک نے شادماں دیکھا جسے آیا اسی کے سر
خدا محفوظ ہر انساں کو رکھے اس کمینے سے
جو لے جاتے ہیں دل میرا بچانا ٹھیس سے اس کو
وہ ہے اے سنگ دل نازک زیادہ آبگینے سے
نہ ہوگی دور غش میری گلاب و مشک و عنبر سے
مرے رخ کو تو دھو اے گل بدن اپنے پسینے سے
کہیں یہ صاف ہوتا ہے کدورت اور کینے سے
اگر زخم جگر مل بھی گیا دشمن کے سینے سے
دل اک دہنے رہا گر دوسرا دائم رہا بائیں
نہ دو باہم ہوئے دل گو ملا سینہ بھی سینے سے
کوئی رنج و الم آئے نہ دل کے پاس اے ساقی
جو ہو آغاز مے نوشی محرم کے مہینے سے
تو چاہے دوسروں کو اور ہم مرتے پھریں تجھ پر
ہمارے واسطے مرنا ہے بہتر ایسے جینے سے
سمجھنا چاہیے کینے سے سینہ ہے بھرا اس کا
کیا ہے مشرقیؔ انکار جس نے مے کے پینے سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |