مرتے مرتے یہ ہم نے کام کیا
مرتے مرتے یہ ہم نے کام کیا
جان دے کر وفا کا نام کیا
شیخ صنعا بنا ہے عشق میں دل
بت کو سجدہ کیا سلام کیا
زلف پر پیچ کھول کر رخ پر
ایک جا لطف صبح و شام کیا
تم نے مجنوں کہا تو عاشق نے
دشت پر خار میں قیام کیا
محو حیرت بنا دیا مجھ کو
تم نے کس لطف سے کلام کیا
چل کے گلشن میں دیکھ لے کیسا
موسم گل نے اہتمام کیا
مبتلا خود نثار ہو جاتے
تم نے افسوس قتل عام کیا
اپنے بندوں کے واسطے اس نے
واہ کیا کچھ نہ انتظام کیا
ساری خلقت ہوئی تماشائی
تم نے جب بام پر قیام کیا
کوئے جاناں ہے مجھ کو خلد بریں
میں نے اپنا یہیں مقام کیا
کھینچ لایا جمیلہؔ آخر کار
جذب صادق نے خوب کام کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |