مرزا غالبؔ
راز دان زندگی اے ترجمان زندگی
ہے ترا ہر لفظ زندہ داستان زندگی
ہر تبسم سے ترے پیدا فغان زندگی
ہر فغاں تیری نشید گلستان زندگی
گلشن حسن و وفا کی آبیاری تجھ سے ہے
خاک کے ذروں کو فخر تاجداری تجھ سے ہے
دور مستقبل پہ دنیا کے نگاہیں تھیں تری
رہبر راہ عمل دل دوز آہیں تھیں تری
سینۂ علم حقیقت میں پناہیں تھیں تری
عرش سے بھی اور آگے جلوہ گاہیں تھیں تری
کام تھا تجھ کو نہ مطلق ہستئ ناکام سے
تھی نوا وابستہ تیری پردۂ الہام سے
فلسفے کی خوب صورت ترجمانی تو نے کی
دشت ہو میں آنسوؤں سے باغبانی تو نے کی
اپنی آنکھوں سے مسلسل خوں فشانی تو نے کی
مدتوں ملک سخن پر حکمرانی تو نے کی
روح مطلق جذب تھی گویا ترے احساس میں
قدس کے نغمے نہاں تھے پردۂ انفاس میں
نطق کو تو نے دیا پیرایۂ سوز و گداز
خون سے کر کے وضو تو نے پڑھی اکثر نماز
گونج اٹھا تیرے نغموں سے حریم حسن و ناز
آج تک محفوظ ہے ہر دل میں تیرا سوز و ساز
عالم بالا سے اک پیغام نو لاتا تھا تو
روح کی گہرائیوں تک اس کو پہنچاتا تھا تو
مے کدہ تھا تیرا یکسر سوز مطلق ساز بھی
تھی مے ہندی بھی ساغر میں مے شیراز بھی
تو حقیقت فہم بھی تھا آشنائے راز بھی
روح کی آواز تھی گویا تری آواز بھی
نقش فریادی ہے تیری شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
آہ خاک ہند میں تو دیر سے خوابیدہ ہے
زینت ہر بزم تیرا جلوۂ نادیدہ ہے
تیرے غم میں آج بھی جان سخن کاہیدہ ہے
ہے تصرف تیرا پیدا اور تو پوشیدہ ہے
سوز تیرا آگ بن کر بزم پر چھا جائے گا
ساز ہستی حشر تک تیرے ہی نغمے گائے گا
This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries). |