مرغابی
ڈھل گیا دن اور شبنم ہے زمیں پر قطرہ ریز
گوشۂ مغرب میں گلگوں ہے شفق سے آسماں
پڑ رہی ہیں دور تک سورج کی کرنیں زرد زرد
جا رہی ہے تو اکیلی شام کو اڑتی کہاں
دیکھتا ہے کیوں عبث صیاد سوئے آسماں
یاس کی نظروں سے تیری شوکت پرواز کو
ارغواں زار فلک کے منظر خوش رنگ نے
کر دیا ہے اور دل کش تیرے نقش ناز کو
ڈھونڈتی پھرتی ہے کیا کوئی سہانا آبشار
یا کہ سر گرم تلاش دامن دریا ہے تو
یا کسی بحر تموج خیز کی ہے جستجو
یوں سکوت شام میں کیوں آسماں پیما ہے تو
تو جو بے سنگ نشان جادہ و بے مرحلہ
کر رہی ہے آسماں پر قطع طبقات ہوا
اڑ سکے بے بدرقہ تو یہ کہاں تیری مجال
کوئی طاقت ہے مگر تیری مقرر رہنما
اے سبک پرواز! تیری سرعت پرواز نے
طے کئے کتنے ہی دن بھر سرو طبقات نسیم
ہو کے داماندہ زمیں پر گر نہ شہ پر جوڑ کر
شب کی ظلمت کا ہے گرچہ سر پہ طوفان عظیم
ہو چکی تیری مشقت ختم تجھ کو عن قریب
گرمیوں کا اک سہانا گھر ملے گا خوش گوار
گاتی ہوگی چھوٹی چڑیوں میں ہم آہنگی سے تو
اور نشیمن پر ترے ہوگی نیستاں کی بہار
ہو گئی غائب فضائے آسماں میں گرچہ تو
اور اب آنکھوں میں ہے تیرا تصور یادگار
میں نے سیکھا ہے سبق لیکن تری پرواز سے
ہے طریق زندگی میں تو مری آموز گار
منطقہ سے منطقہ تک اے سبک پرواز شوق
وسعت اوج فلک پر ہے جو تیرا راہبر
مجھ کو بھی لے جائے گا وہ منزل مقصود تک
جب کروں گا جادۂ ہستی سے میں تنہا سفر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |