مرقع زبان و بیان دہلی/بعض نقلیں اور لطیفے وغیرہ
بعض نقلیں اور لطیفے وغیرہ
اگر چہ ان لطیفوں میں بعض لطیفے لطافت و ظرافت انگیزی سے گرے ہوئے ہیں مگر نقلِ کفر کفر نباشد بطور یادگار چند باتیں لکھ دیتے ہیں۔
ایک دفعہ مرزا محمد سلطان فتح الملک بہادر ولی عہد نے بادشاہی موتی محل شاہ برج اور اپنی قیام گاہ کے درمیان بادشاہ کی بلا اجازت دیوار کھچوا لی، بادشاہ کو ان کی یہ حرکت ناگوار ہوئی۔ ولی عہد مرحوم سے فرمایا: امّا!(٢٧) اب تم سر پر چڑ ھے آتے ہو، جو کچھ جی میں آتا ہے حضور کی مرضی کے خلاف کر گزرتے ہو۔ ولی عہد مغفور بڑے تیز طبع، عالی دماغ، حاضر جواب تھے۔ ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ جہاں پناہ! غلام تو ازل ہی سے حضور کے سر مبارک پر آیا ہے۔ اب چالیس برس سے جدا ہو گیا تو اس کی عزت میں فرق نہیں آیا۔ بادشاہ کی خفگی ولی عہد کی اس حاضر جوابی سے رفت گزشت ہو گئی۔
لطیفہ
اگلے بادشاہوں کی اولاد بادشاہِ حال کے بھائی بند کہلاتے تھے۔ ایک دفعہ بادشاہ نے سب بھائی بندوں کو کسی سبب سے دیوان خاص میں آنے کی بندی کر دی۔ مرزا بٹّو حضرت عالمگیر بادشاہ کی اولاد میں سے ایک بڑی عمر کے بادشاہزادے تھے۔بادشاہ ان سے اکثر ہنس بول لیا کرتے تھے۔ ان کی بڑی بڑی آنکھیں کٹورا سی تھیں، اس لیے انھیں مرزا بٹّو کہتے تھے۔ اسی طرح شاہزادے آپس میں جیسی جس کی صورت و ہیئت ہوتی تھی پھبتے ہوئے نام رکھ دیتے تھے۔جس کا لمبا چہرہ، چُگّی ڈاڑھی ہوئی اس کو کدال، چکلے چہرہ والے کو چوپال، ٹھنگنے کو گھٹنّا، بونے کو جانگیا کہا کرتے تھے۔ علی ہذا القیاس کسی کو مرزا چڑیا، کسی کو مرزا ٹورے، کسی کو مرزا سُریلے، کسی کو مرزا رنگیلے کہتے اور کوئی مرزا چپاتی، مرزا شیدی، مرزا کالٹین، مرزا جھِر جھِری کہلاتا تھا۔
مرزا بٹّو کو بادشاہ کی ہمکلامی کے سبب زیادہ رسوخ تھا۔ بادشاہ سے یہ ذو معنی فقرہ اس لہجہ سے عرض کیا (کہ جہاں پناہ حضور کے بھائی بند) بادشاہ ان کی رمز سمجھ گئے اور بھائی بندوں کی بندی کھول دی۔
لطیفہ
اسی طرح ایک شخص ظریفانہ شعر و غزل کہہ کے سب کو خوش کیا کرتا تھا۔ ہُدہُد الشعراء اس کا تخلص تھا۔ مسخرہ و مسخر الذی کہلاتا تھا۔ بادشاہ کے ہاں سے تنخواہ پاتا تھا۔ چنانچہ اس کا ذکر کئی تذکروں میں مع کلام موجود ہے۔ راجا دیبی سنگھ و سالگرام مختارِ سرکار بادشاہی نے اس بیچارے کی تنخواہ بند کر دی تھی۔ ایک دن ایک غزل کہہ کے لے گیا اور ایسے وقت میں کہ راجا صاحب مذکور بھی وہاں موجود تھے، ساری غزل پڑھ کر سنائی جس کا مقطع جو خاص راجا صاحب کی طرف منہ کر کے پڑھا، حسب ذیل ہے:
دے دے دیبی سنگھ یہ ہُد ہُد کا کھاجا ہے (ہد ہد کا کھا جا)
اس لہجہ سے اور خوب کھینچ کے اس طرح پڑھا کہ اہل دربار نے دانتوں میں انگلی رکھ لی کہ بہت بڑھ کے کہی۔ مگر مسخرے کی بات کو کون دُلک سکے۔ ہنسی میں شاہ و گدا دونوں برابر۔ راجا جی خفیف ہوئے اور اس کی تنخواہ دلا دی۔ مگر تذکرہ گلستانِ سخن میں مرزا صاحب نے اس موقع کے یہ دو شعر درج فرمائے ہیں:
جہاں میں آج دیبی سنگھ تو راجوں کا راجا ہے کسی کو دے نہ دے تنخواہ تو مختار ہے اس میں
خدا کا فضل ہے جو قلعہ میں تو آ براجا ہے مگر ہدہد کو دے دے کیوں یہی ہد ہد کا کھاجا ہے
قلعہ معلیٰ میں بادشاہ کی طرف سے دھوم دھام کے مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ بڑے بڑے نامی گرامی شعرا وہاں آکر اپنے کلام کی داد پاتے تھے۔ جہاں مشاعرہ ہوتا ہے وہاں ایک نہ ایک مسخرہ بھی جسے نُقلِ مشاعرہ یا رونقِ مشاعرہ کہنا چاہیے، اہل مشاعرہ کے ہنسانے، پھڑکانے، خوش کرنے کے واسطے اپنے مسخرہ پن کے اشعار سناتا اور لوگوں کو اپنا منتظر بنائے رکھتا ہے۔ جب تک اس کا وار نہیں آتا مشاعرہ برابر جما رہتا ہے۔
ایسے لوگوں میں سے ایک شخص میاں عبد الرحمٰن جناب حکیم آغا جان عیشؔ کے بنائے ہوئے مسخر الّذی تھے؛ جن کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ اصل میں یہ پورب سے دلی میں آئے تھے گویا پورب کے منہئی تھے ۔جس طرح مالی جمع پونجی سے نادار تھے، اسی طرح علمی سرمایہ بھی ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ صرف شُد بُد کے حوصلے پر دلّی کی گلیو ں میں مکتب لے بیٹھے تھے ۔الفاظ کے معانی دل سے گھڑگھڑ کر بے محل اور بے موقع بنادیتے تھے ۔جہاں حکیم صاحب کا درِ دولت تھا وہاں ایک مکتب جما لیا تھا جس میں حکیم صاحب کے عزیزوں میں سے بھی بعض بچے پڑھنے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا سکندر نامہ پڑھا کرتا تھا۔ حکیم صاحب کا معمول تھا کہ آٹھویں ساتویں دن ایک لڑکے کا سبق سنا کرتے تھے۔سکندر نامہ کا سبق جو سنا تو عجیب وغریب معانی و مضامین سننے میں آئے۔فرمایا کہ اپنے مولوی صاحب کو کسی وقت ہمارے پاس بھیج دینا ۔وہ دوسرے ہی روز تشریف لائے۔ حکیم صاحب صرف نبّاض ہی نہیں بلکہ قیافہ شناس بھی تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک طرفہ معجون ملّا ئے مکتبی ہے ۔تھوڑی سی ترکیب میں رونقِ محفل بن سکتا ہے۔ پوچھا کہ آپ کو شعر و سخن کا کچھ مذاق ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا کیا مشکل بات ہے، ابھی ہو سکتا ہے۔حکیم صاحب نے ارشاد کیا کہ دو چار روز میں ایک جگہ مشاعرہ ہونے والا ہے اور یہ طرح ہے۔ آپ بھی اس پر طبع آزمائی فرمائیے۔ ان بیچاروں نے مشاعرہ میں شریک ہونا تو کیسا، اس کا نام بھی نہ سنا تھا۔حکیم صاحب نے مشاعرہ کی صورت ان کے ذہن نشین کر دی۔ مولوی صاحب نے فرمایا اس عرصے میں تو میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں۔ غرض مضحکہ انگیز اشعار گھڑ کر لائے جنھیں دیکھ کر حکیم صاحب نے کہا کہ اچھا خوش مسخرہ ہاتھ لگا۔ ان کے شعروں میں نمک مرچ لگا کر انھیں خوب چٹ پٹا بنا دیا۔ مولوی صاحب اس اصلاح سے بہت خوش ہوئے اور حکیم صاحب سے فرمائش کی کہ تخلص بھی آپ ہی تجویز کر دیجیے۔ انھوں نے دیکھا کہ مولوی صاحب کا گُھٹا ہوا چھوٹا سا سر ہے ۔چُگّی كدال نما ڈاڑھی، اس پر اوندھی سیدھی لٹ پٹی دستار خاصے کُھٹ بڑھئی نظر آتے ہیں۔ مولوی صاحب سے فرمایا کہ سب سے موزوں، نرالا اور تاجدار تخلص تو ہدہد ہے۔ مرغ سلیمان کا لقب اور قاصد خجستہ پیام کا خطاب اسی کو ملا ہوا تھا۔ پس آپ یہی تخلص اختیار کیجیے اور کُل پرندوں کے بادشاہ بن جائیے۔ اس کے سر پر تاج ہے تو آپ کا عمامہ اس کا سرتاج۔ جتنے شاعر ہیں سب خوش الحان پرندوں کے زمرہ میں شامل ہیں۔ ان کا چہکنا سب کو پسند ہے۔ بُلبلِ ہزار داستان، طوطیٔ خوش الحان انھیں کی تعریف ہے۔ ملا جی نے اس تخلص کو بہت ہی پسند کیا۔ مشاعرہ میں گئے۔ جب ان کا نمبر آیا تو شمع لاکر آگے رکھی گئی۔ حکیم صاحب نے اِن کی بہت سی تعریف کی اور وہ تازہ انوکھی غزل ان کی زبان سے پڑھوا دی۔ تمام مشاعرہ پھڑک گیا۔ ہنستے ہنستے لوگوں کے پیٹ میں بل پڑ گئے۔ ان کے اشعار کی زمین کشتِ زعفران بن گئی۔ اور سر جھکا کر کدال سی ڈاڑھی کا نیچے کرکے اونچا اٹھانا ہو بہو کُھٹ بڑھئی کا نقشہ دکھاتا تھا۔ لیاقت کے کھوکھلے درخت کو کھود کھود کر لوگوں کے دلوں میں گھر بناتا تھا۔ اب ہر ایک مشاعرہ میں بلائے جانے لگے۔ اس شغل میں مکتب وَکتب سب رفو چکر ہوا۔ بھوکے مرنے لگے۔ حکیم صاحب کو ان کی حالت زار پر رحم آیا۔ فرمایا کہ ہدہد! بادشاہ کی شان میں کوئی قصیدہ لکھو تو تمھیں دربار میں لے چلیں اور وہاں سے کوئی گزارہ کی صورت کرا دیں۔ انھوں نے جھٹ ایک قصیدہ تیارکیا جس کا مطلع یہ تھا:
جو تیری مدح میں مَیں چونچ اپنی وا کر دوں
تو رشک باغ ارم اپنا گھونسلا کر دوں
بادشاہ اس قصیدہ سے نہایت خوش ہوئے۔ طائر الاراکین، شہپر الملک، ہدہد الشعراء، منقار جنگ بہادر خطاب دے کر سات روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اب میاں ہدہد کو یہ دن لگے کہ بلبلانِ سخن کے ٹھونگیں مارنے لگے۔ سرِ مشاعرہ اکثر شعرا پر منہ آتے۔ دو دو چونچیں ہو جاتیں۔ گو شعر بالکل بے معنی ہوتے تھے مگر الفاظ نہایت شستہ اور رنگین باندھتے تھے۔ بعض شعرا نے ان کے مقابلہ کے واسطے دو ایک پٹھے تیار کیے۔ کسی کا تخلص زاغ، کسی کا باز رکھ دیا اور ان کی خوب جھڑپ ہوتی تھی۔ چنانچہ ایسے موقع کے دو ایک شعر اس جگہ نقل کیے جاتے ہیں:
باز پر چوٹ
جسے کہتے ہیں ہدہد وہ تو نر شیروں کا دادا ہے گر اب کے بازڑی میداں میں آئی سامنے میرے
مقابل تیرے کیا ہو تُو تو اک جُرّے کی مادہ ہے تو دُم میں پر نہ چھوڑوں گا یہی میرا ارادہ ہے
زاغ پر چوٹ
جون آیا ہے بدل اب کے عدو کوّے کی وہی کاں کاں وہی کیں کیں وہی ٹاں ٹاں اُس کی بن کے کوّا جو یہ آیا ہے تو اے ہدہدؔ شاہ
اُس کی ہے پاؤں سے تا سر وہی خو کوّے کی بات چھوڑی نہیں ہاں اک سر مو کوّے کی دُم کتر دینے کو کچھ کم نہیں تو کوے کی
خود ستائی
ہدہد کا مذاق ہے نرالا سب سے سر دفترِ لشکر سلیماں ہے یہ
انداز ہے اک نیا نکالا سب سے اڑتا بھی ہے دیکھو بالا بالا سب سے
قلعہ معلیٰ کا مشاعرہ
چونکہ برسبیل تذکرہ مشاعرہ کا کچھ ذکر اوپر آیا ہے، لہذا ہم اس جگہ ایک مشاعرہ کا ذکر کر دینا بھی خالی از لطف نہیں سمجھتے ۔ یوں تو قلعہ معلیٰ میں شہزادگانِ دہلی کی طرف سے اکثر مشاعرے ہوا کرتے تھے، مگر کبھی کبھی بہادر شاہ بادشاہِ دہلی کے روبرو بھی شعرا کا اکھاڑا جما کرتا تھا، جس کا یہ طریقہ تھا کہ بادشاہ کی طرف سے چیدہ چیدہ شاعروں کو طرح کا مصرع بھیج دیا جاتا تھا۔ وہ اپنے خاص خاص شاگردوں کی ٹولیاں لے کر بارگاہِ سلطانی میں متعینہ وقت پر حاضر ہو جاتے تھے۔ بادشاہ شہ نشین میں تشریف لا کر جلوہ افروز ہوتےاور تمام شاعر حضور معلی کے سامنے حسب ارشاد والا بیٹھ جاتے تھے۔ بادشاہ کے مقابل شمع رکھی جاتی تھی، جس شاعر کو حکم ہوتا تھا وہ سامنے حاضر ہوکر غزل پڑھتا تھا۔ اس وقت شاہی امرا میں سے ایک دو امیر بھی حاضرخدمت رہتے تھے۔ بادشاہ جس شعر کی تعریف فرماتے تھے، حاضر باش امیروں میں سے ایک امیر بآواز بلند اس شاعر سے کہتا تھا کہ ظلّ سبحانی آپ کے اس شعر کی تعریف فرماتے ہیں۔وہ شاعر سر و قد کھڑا ہو کر حسب قاعدہ تین آداب بجالاتا اور از سر نو وہ غزل پھر اہل مشاعرہ کی فرمائش سے سنا دیتا تھا۔ واہ واہ کے شکریہ میں سلام کرتے کرتے تھک جاتا تھا۔
ایک مرتبہ میر محمد حسین تسکینؔ خلف میر حسن عرف میرن صاحب جو شاعر نکتہ سنج، نہایت متین اور شاگرد مومن خاں متخلص بہ مومن تھے، اپنی غزل پڑھ رہے تھے ۔جب اس شعر پر پہنچے:
تمھیں بھی کھولنی زلفیں پڑیں گی
دل گم گشتہ اپنا گر نہ پایا
تو بادشاہ موصوف نے خود بے ساختہ زبان مبارک سے تعریف کی کہ میر صاحب بہت اچھا کہا۔
شاہی مشاعروں کے موقع پر حسب موسم ایک علاحدہ مکان میں مٹھائی، شربت، تر میوے اور ترکاریاں،چائے، قہوہ وغیرہ مہیا رہتا تھا۔ اختتام مشاعرہ پر سب شاعر وہاں جاتے اور بادشاہ کے خوان نعمت سے متلذذ و محظوظ ہوتے تھے۔
لطیفہ
ایک مرتبہ بادشاہ کے دشمنوں کی طبیعت کچھ ناساز ہوئی۔ بڑے صاحب بہادر رزیڈنٹ دہلی کو خبر پہنچی۔ جمعدار کو مزاج پرسی کے واسطے بھیجا اور یہ عرض کرایا کہ حضور آم نوش نہ فرمائیں کہ یہ حضور کو مضر ہیں۔ بادشاہ کو آموں کا بہت شوق تھا اور نہایت مرغوب تھے۔ مہتاب باغ میں وہ وہ نایاب آموں کے درخت اگلے بادشاہوں کے لگائے ہوئے جن کا نام شہد کوزہ، بتاسہ،محمد شاہی لڈوا وغیرہ تھا، ایسے تھے کہ پیوندی آم ان کے آگے پانی بھرتے تھے۔ قطب صاحب میں جھرنے پر ان کی پود پھیلائی۔ پیوندی آموں کے ناندوں میں درخت لگا کے خاص موتی محل، ہیرا محل میں اپنے سامنے رکھے تھے اور جھروکوں میں بھی بہت سے درخت رکھوا دیے تھے۔بھلا جس چیز پر ایسی رغبت ہو وہ کس طرح چھوٹ سکے۔ جمعدار کے ہاتھ اسی وقت یہ شعر لکھ کے بڑے صاحب بہادر کو بھیج دیا:
آم اے فرزند من مجھ کو بہت مرغوب ہیں
کچھ نہیں کرتے ضرر میرے لیے یہ خوب ہیں
فرزندِ ارجمندِ سلطانی بادشاہ نے بڑے صاحب بہادر کو خطاب دیا تھا، اس لیے فرزند کہتے تھے۔ پورا خطاب یہ تھا “معظم الدولہ، امین الملک، اختصاص یار خاں، فرزند ارجمند، بجاں پیوندِ سلطانی سرچارلس مٹکاف(٢٨) صاحب بہادر فیروز جنگ”۔
لطیفہ
قصبہ مہرولی میں جہاں حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا مزار مبارک ہے، آب وہوا کی موافقت یا سیر و شکار کے سبب بادشاہ اکثر جا کر رہا کرتے تھے۔ ایک دن منہ اندھیرے کسی کو ساتھ لیے بغیر بے خبری کے عالم میں اکیلے محل میں سے درگاہ شریف میں فاتحہ پڑھنے برآمد ہوئے۔ شاہی سپاہی خاص ڈیوڑھی پر پہرا دے رہا تھا۔ یہ کسی کی آمد ورفت کا وقت نہ تھا۔ اندھیرے میں اس نے نہ پہچانا، قاعدہ کے موافق ٹوکا کہ “ہوکم ڈر” (اصل میں یہ جملہ مخفف ہے انگریزی جملہ “ہو کمس دِیر” کا جس کے معنی ہے “کون آتا ہے”)، بادشاہ نے فرمایا کہ ظفر! سپاہی یہ سنتے ہی سہم گیا۔ سلامی اتاری، پرے ہٹ گیا۔
لطیفہ
بادشاہ شہزادگی کے زمانے میں مرزا ابّن کہلاتے تھے، جب ولی عہدی ملی ابو ظفر مشہور ہوئے۔ حضرت عرش آرامگاہ معین الدین محمد اکبر شاہ بادشاہ ان سے ناراض تھے۔ یہ محل میں جب آداب و کورنش کے واسطے بادشاہ کے حضور میں حاضر ہوتے تو بادشاہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کے نہ دیکھتے، گھڑیوں کھڑے رہتے، جب بیگم صاحبہ نواب ممتاز محل عرض کرتیں کہ حضور! مرزا مُجرے کو کھڑا ہے تو ان کی طرف بے التفاتی کی نظر ڈال لیتے اور یہ مُجرا بجالاتے۔ دیگر شاہزادے بادشاہ کے لاڈلے اور چاہیتے بیٹے تھے مگر یہی نظروں سے گرے ہوئے تھے۔ بادشاہ کی ایک بیگم نے ان کے حسب حال یہ شعر کہا تھا:
یوں ہیں ابو ظفر شہِ اکبر کے روبرو
جیسے ابالی دال مزعفر کے رو برو
مرزا کوڑے کا تام جھام
اسی قلعہ کے شہزادگانِ والا تبار میں سے ایک صاحب عالم بہادر مرزا کوڑے کے نام سے مشہور و معروف تھے۔ آپ کے ہاں پالکی، نالکی،رتھ، تام جھام، سواری شکاری کے گھوڑے وغیرہ سب ٹھاٹھ موجود تھا۔ رتھ بان نے بیلوں کے واسطے پولیاں منگا دینے کی درخواست کی۔ آپ نے فوراً گڑوالوں کے پاس آدمی بھیج کر پولیوں کے چھکڑے منگوا دیے۔ لیکن اٹھا کر رکھوانے کے واسطے آدمی کم تھے۔تام جھام کے کہاروں کو ارشاد ہوا کہ پولیاں اٹھا اٹھا کر رتھ خانہ میں رکھوا دیں۔سب کہاروں نے ایک زبان ہو کر عرض کیا کہ حضور ہم تام جھام اٹھانے کے نوکر ہیں۔ پالکی، نالکی،پینس ہم سے اٹھوا لیجیے۔ آپ نے کہا کہ تام جھام اٹھا لاؤ۔ چناچہ وہ ارشاد کے ساتھ اٹھا لائے۔حکم ہوا کہ اس کے اندر پولیوں کو بھرو اور رتھ خانہ تک لے چلو۔ غرض دس بیس پھیرے پولیوں کے کرائےاور آئندہ کے واسطے یہ قاعدہ مقرر کر لیا کہ جو کچھ بازار سے لانا ہوتا، تام جھام میں سوار ہوکر خود جاتے اور آپ ہی لے کر آتے۔
کہاروں کے دن بھر میں دس دس، بیس بیس پھیرے ہو جاتے۔ مثلاً اگر گھر میں ترکاری کی ضرورت ہے تو حکم دیا لگا تام جھام۔ پانوں کی خواہش ہوئی تو فرمایا لگا تام جھام۔ غرض ہر ایک چیز کے واسطے خریدنے جاتے اور کہاروں کو ان کے انکار کا مزہ چکھاتے۔اخیر کو کہاروں نے ہار مان کر اقرار کر لیاکہ ہم جب نوکر ٹھہرے تو ہمیں کسی بوجھ کے اٹھانے سے بھی انکار نہیں۔ آپ ہمارے اوپر رحم کھائیے اور کوڑی پھیرا نہ کرائیے۔ غرض ان کا قصور معاف کر دیا۔
بھانڈوں، نقالوں کو محافل و مجالس سور و سرور میں نقل کر کے اہل محفل کو ہنسانے کا ایک مشغلہ ہاتھ آ گیا۔ جہاں جاتے وہاں مرزا کوڑا کے تام جھام کی بھی ضرور نقل کرتے اور یہ فقرہ زبان پر لاتے “دو کوڑی کی ہینگ ہے لانی، لاؤ میری پالکی”۔
اصل بات تو اتنی تھی مگر جہلا نے اس کا یہ نتیجہ نکالا کہ کنجوسی اور کفایت شعاری کو مدنظر رکھ کر مرزا کوڑے پالکی کے کہاروں سے ہی سارا کام لیتے اور نوکروں کی تنخواہ بچاتے تھے۔
نقل
نواب زینت محل جو ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ خاتم السلاطینِ مغلیہ کی بڑھی چڑھی ملکہ تھیں، وہ بیمار ہوئیں۔ اپنی بیماری کا حال اس شعر میں لکھ کے بادشاہ کو بھیجا، شعر:
حضرت ہمارے حال کی تم کو خبر بھی ہے؟
کھانسی بھی ہے بخار بھی ہے درد سر بھی ہے!
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زینت محل صاحبہ کو شعر و سخن کا ملکہ ہی نہیں تھا بلکہ طبیعت بھی موزوں تھی۔
نقل
بہادر شاہ بادشاہ اور سُکھ دیو پہلوان
ایام غدر سے چند روز پیشتر ریاست بھرتپور(٢٩) کا مشہور پہلوان سُکھ دیو جیٹھی دہلی میں آیا اور بادشاہ کے حضور میں عرضی گزرانی کہ حضور تمام شہر میں منادی کرا دیں کہ جس پہلوان کو دعویٰ کشتی ہو وہ کل جھروکوں کے نیچے آ جائے، ورنہ اب میں لنگوٹ کھول ڈالوں گا۔ یعنی اپنا ثانی نہ دیکھ کر کشتی سے عہد کر لوں گا۔چنانچہ دوسرے روز جین ریتی میں جھروکوں کے نیچے دہلی کی تمام خلقت اور بڑے بڑے نامی پہلوان جمع ہوئے۔ ایک بڑا بھاری میلہ لگ گیا۔ مگر کسی کی ہمت نہ پڑی کہ سکھ دیو سے کشتی لڑے۔ آخر کار سکھ دیو نے بھاری بھاری مُگدر ہلا کر طرح طرح سے ڈنڈ پیل کر ڈھینکلیاں کھا کھا کر اپنا زور دکھایا اور بادشاہ کے روبرو لنگوٹا رکھ کر آئندہ کشتی کرنے، پکڑ لڑنے سے ہاتھ اٹھایا۔ بادشاہ سلامت نے اس کی خداداد طاقت اور دعوے کے ثبوت میں فی البدیہہ یہ شعر فرمایا بلکہ ایک چاندی کی تختی میں اسے کھدوا کر اس کے ڈنڈ پر بندھوا دیا:
صورت رستم، سیرت گیو(٣٠)
یکتا گُرو مہا سُکھ دیو(٣١)