مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے
مرنے والے خوب چھوٹے گردش ایام سے
سو رہے ہیں پاؤں پھیلائے ہوئے آرام سے
اور تو مطلب نہیں کچھ ہم کو دور جام سے
ہاں عوض لیتا ہے ساقی گردش ایام سے
گرچہ ترک آشنائی کو زمانہ ہو گیا
لیکن اب تک چونک اٹھتے ہیں وہ میرے نام سے
اشتیاق مے کشی کچھ مے کشی سے کم نہیں
ہم تو ساقی مست ہو جاتے ہیں خالی جام سے
مے کدے کا راز پردے ہی میں رہنا خوب تھا
دیکھ ساقی شیشہ کچھ کہتا ہے تھک کر جام سے
زلف سنبل نکہت گل موج سبزہ موج آب
باغ میں کوئی جگہ خالی نہ دیکھی دام سے
ہم فقیر مے کدہ ساقی ہمیں کیا چاہیئے
ہے وہی کافی چھلک جاتی ہے جتنی جام سے
بے نشاں تجھ کو سمجھ کر صبر آ جاتا مجھے
پر یہ مشکل ہے کہ میں واقف ہوں تیرے نام سے
کیا خدا کی شان ہے جن کا وظیفہ تھا جلیلؔ
آج وہ کہتے ہیں میں واقف نہیں اس نام سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |