مرنے کی مجھ کو آپ سے ہیں اضطرابیاں

مرنے کی مجھ کو آپ سے ہیں اضطرابیاں
by تاباں عبد الحی

مرنے کی مجھ کو آپ سے ہیں اضطرابیاں
کرتا ہے میرے قتل کو تو کیوں شتابیاں

میرا ہی خانماں نہیں ویراں ہوا کوئی
بہتوں کی کی ہیں عشق نے خانہ خرابیاں

خوان فلک پہ نعمت الوان ہے کہاں
خالی ہے مہر و ماہ کی دونوں رکابیاں

ہرگز خم فلک میں نہیں ہے شراب عشق
غنچوں کی خون دل سے بھری ہیں گلابیاں

حلقوں سے اس کی زلف کے رخسار ہے عیاں
تاباںؔ جتھے میں دیکھو ہیں کیا ماہتابیاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse