مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا

مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا
by نسیم دہلوی

مرگ اغیار لب پہ لا نہ سکا
وہ قسم ہوں جو یار کھا نہ سکا

اس قدر ضعف تھا کہ تیرا ناز
تھی تمنا مگر اٹھا نہ سکا

مر کے ٹھنڈا کہیں نہ ہو جائے
اس لیے وہ مجھے جلا نہ سکا

بخل دیکھو تو میری تربت پر
ایک آنسو بھی وہ گرا نہ سکا

اٹھ نہ جائے رقیب محفل سے
مجھ کو پہلو میں وہ بٹھا نہ سکا

تھا جو اشک عزیز خاطر میں
دیدۂ تر مجھے بہا نہ سکا

حسن تیرا وہ ماہ تاباں تھا
ابر گیسو جسے چھپا نہ سکا

دار فانی مقام لغزش ہے
کوئی اپنا قدم جما نہ سکا

نہ ملا کوئی وقت تنہائی
حال دل یار کو سنا نہ سکا

جانتا تھا پڑے رہیں گے وہیں
اس لیے یار گھر بتا نہ سکا

نہ منا لڑ کے وہ بہت چاہا
ایسے بگڑے کہ پھر بنا نہ سکا

دیکھ کر بد دماغیاں ان کی
نامہ بر خط مرا پڑھا نہ سکا

کس طرح عرض مدعا کرتا
غیر کو پاس سے ہٹا نہ سکا

آرزو مند رہ گیا مجنوں
میرے آگے فروغ پا نہ سکا

کینہ شوق رقیب تھا اے دوست
کہ طبیعت سے تیری جا نہ سکا

کیا ندامت ہوئی ہے قاتل سے
ناز خنجر گلو اٹھا نہ سکا

خوف تھا غش انہیں نہ آ جائے
میں شگاف جگر دکھا نہ سکا

ناتواں تھا نسیمؔ اس درجہ
کہ وہ زنجیر پا ہلا نہ سکا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse