مریض عشق کی جز مرگ دنیا میں دوا کیوں ہو
مریض عشق کی جز مرگ دنیا میں دوا کیوں ہو
اگر جاں ہو عزیز اپنی تو جاناں پر فدا کیوں ہو
اٹھے جو آگ سینہ سے دبا دوں اس کو اشکوں سے
شب ہجراں میں نالہ سے مرا لب آشنا کیوں ہو
ملو خلوت میں اور دو تم مجھے درس شکیبائی
کرم تم میں نہ ہو تو دل مرا صبر آزما کیوں ہو
چلے جب تک زباں جاری ہو اس پر داستان غم
توانائی ترے بیمار کی صرف دعا کیوں ہو
بھلا تو اور گھر آئے مرے کیوں کر یقیں کر لوں
تخیل کیوں نہ ہو میرا تری آواز پا کیوں ہو
اگر بخت رسا نے رہبری کی تیری خلوت تک
تو پھر دست تمنا رہن دامان قبا کیوں ہو
مرے خوں اور حنا میں دیر سے باہم رقابت ہے
نہ ہو گر رنگ خوں پا میں تو پھر رنگ حنا کیوں ہو
قیامت ایک دن آئی ہے اس میں شک نہیں شیداؔ
کھڑا ہو بزم سے جب وہ قیامت پھر بپا کیوں ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |