مریض ہجر کو صحت سے اب تو کام نہیں
مریض ہجر کو صحت سے اب تو کام نہیں
اگرچہ صبح کو یہ بچ گیا تو شام نہیں
رکھو یا نہ رکھو مرہم اس پہ ہم سمجھے
ہمارے زخم جدائی کو التیام نہیں
جگر کہیں ہے کہیں دل کہیں ہیں ہوش و حواس
فقط جدائی میں اس گھر کا انتظام نہیں
کوئی تو وحشی ہے کہتا کوئی ہے دیوانہ
بتوں کے عشق میں اپنا کچھ ایک نام نہیں
سحر جہاں ہوئی پھر شام واں نہیں ہوتی
بسان عمر رواں اپنا اک مقام نہیں
کیا جو وعدۂ شب اس نے دن پہاڑ ہوا
یہ دیکھیو مری شامت کہ ہوتی شام نہیں
وہی اٹھائے مجھے جس نے مجھ کو قتل کیا
کہ بہتر اس سے مرے خوں کا انتقام نہیں
اٹھایا داغ گل افسوس تم نے دل پہ سرورؔ
میں تم سے کہتا تھا گلشن کو کچھ قیام نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |