مرے خلوص کی شدت سے کوئی ڈر بھی گیا
مرے خلوص کی شدت سے کوئی ڈر بھی گیا
وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا
یہ دیکھنا تھا بچانے بھی کوئی آتا ہے
اگر میں ڈوب رہا تھا تو خود ابھر بھی گیا
اے راستے کے درختو سمیٹ لو سایہ
تمہارے جال سے بچ کر کوئی گزر بھی گیا
کسی طرح سے تمہاری جبیں چمک تو گئی
یہ اور بات سیاہی میں ہاتھ بھر بھی گیا
اسی پہاڑ نے پھونکے تھے کیا کئی جنگل
جو خاک ہو کے مرے ہاتھ پر بکھر بھی گیا
یہیں کہیں مرے ہونٹوں کے پاس پھرتا ہے
وہ ایک لفظ کہ جو ذہن سے اتر بھی گیا
وہ شاخ جھول گئی جس پہ پاؤں قائم تھے
شکیبؔ ورنہ مرا ہاتھ تا ثمر بھی گیا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |