مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے

مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے
by ولی اللہ محب

مرے دل میں ہجر کے باب ہیں تجھے اب تلک وہی ناز ہے
جو یہ جی ہی لینے پہ ہے نظر تو قبول ہو یہ نماز ہے

یہی کھوج لینے کے واسطے پھروں ہوں میں ساتھ نسیم کے
کہ چمن میں کوئی ہے گل کہیں تری بو سے محرم راز ہے

کوئی اور قصہ شروع کر جو تمام کہہ سکے ہم نفس
کہ فسانہ زلف سیاہ کا شب ہجر سے بھی دراز ہے

ہوئی دل میں جب سے ہے شعلہ زن مری آتش عشق کی ہر نفس
جو پتنگ و شمع میں دیکھیے نہ وہ سوز ہے نہ گداز ہے

بخدا کہ مدت عشق میں یہی بات فرض ہے ناصحا
کہ صنم کے نقش قدم سوا نہیں سجدہ گاہ نماز ہے

نہ برابر اس کو بھی زاہدو گنو اپنے کعبے کی راہ کے
رہ عشق میں جو قدم رکھو تو بہت نشیب و فراز ہے

کوئی شغل اس سے نہیں بھلا کہ محبؔ ہو عشق میں مبتلا
اسی راہ حق کا بنے رہنما یہی عشق اگرچہ مجاز ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse