مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
کہ دل دہندہ جیو یا مرو ہوا سو ہوا
جلا دیا جو پتنگ اب نہ رو ہوا سو ہوا
اے شمع صبح کو جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا
دل اس کوں دے چکا دیوانگی نہ چھوڑوں گا
اے طفلو پتھروں سے مارو ہنسو ہوا سو ہوا
مجھے رلا کے خوں آنسو نہ پونچھ خوف یہ ہے
تو ہاتھ میرے لہو سے نہ دھو ہوا سو ہوا
بچھائیں پلکیں جو میں نے نہ آیا کہہ بھیجا
اب آگے راہ میں کانٹے نہ بو ہوا سو ہوا
کیا ہے قتل جو عزلتؔ کو اب نہ رو اے یار
کہ سر پہ حسن پرستوں کے جو ہوا سو ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |