مزے عشق کے کچھ وہی جانتے ہیں
مزے عشق کے کچھ وہی جانتے ہیں
کہ جو موت کو زندگی جانتے ہیں
شب وصل لیں ان کی اتنی بلائیں
کہ ہمدم مرے ہاتھ ہی جانتے ہیں
نہ ہو دل تو کیا لطف آزار و راحت
برابر خوشی ناخوشی جانتے ہیں
جو ہے میرے دل میں انہیں کو خبر ہے
جو میں جانتا ہوں وہی جانتے ہیں
پڑا ہوں سر زم میں دم چرائے
مگر وہ اسے بے خودی جانتے ہیں
کہاں قدر ہم جنس ہم جنس کو ہے
فرشتوں کو بھی آدمی جانتے ہیں
کہوں حال دل تو کہیں اس سے حاصل
سبھی کو خبر ہے سبھی جانتے ہیں
وہ نادان انجان بھولے ہیں ایسے
کہ سب شیوۂ دشمنی جانتے ہیں
نہیں جانتے اس کا انجام کیا ہے
وہ مرنا میرا دل لگی جانتے ہیں
سمجھتا ہے تو داغؔ کو رند زاہد
مگر رند اس کو ولی جانتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |