مزے لوں درد کے میں تھوڑے تھوڑے ظلم سہ سہ کر
مزے لوں درد کے میں تھوڑے تھوڑے ظلم سہ سہ کر
ستم کیجے تو تھم تھم کر جفا کیجے تو رہ رہ کر
ملے تھے آج مدت میں بہت روئے بہت تڑپے
وہ درد عشق سن سن کر ہم اپنا درد کہہ کہہ کر
ہوئی ہے شمع محفل تو شریک گریۂ عاشق
تجھے اے قلقل مینا کہا تھا کس نے قہہ قہہ کر
چھپایا زلف نے چہرہ تو شوخی نے کیا ظاہر
ہزاروں بار نکلا وصل کی شب چاند گہہ گہہ کر
تڑپنے میں مزہ آتا ہے اس کم بخت کے ہم کو
اگر دل یاس سے بیٹھا ابھارا ہم نے کہہ کہہ کر
یہ جانا تھا نہ آئیں گے تو کیوں جانے دیا ان کو
یہی اے داغؔ پچھتاوا مجھے آتا ہے رہ رہ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |