مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہیے
بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے
عاشق ہوے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہیے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر پائے خم پہ چاہیے ہنگام بے خودی
رو سوئے قبلہ وقت مناجات چاہیے
یعنی بہ حسب گردش پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |