مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
مسکن وہیں کہیں ہے وہیں آشیاں کہیں
دو آڑے سیدھے رکھ لیے تنکے جہاں کہیں
پھولوں کی سیج پھولوں کی ہیں بدھیاں کہیں
کانٹوں پہ ہم تڑپتے ہیں او آسماں کہیں
جاتے کدھر ہو تم صف محشر میں خیر ہے
دامن نہ ہو خدا کے لیے دھجیاں کہیں
پہرا بٹھا دیا ہے یہ قید حیات نے
سایہ بھی ساتھ ساتھ ہے جاؤں جہاں کہیں
بس مجھ کو داد مل گئی محنت وصول ہے
سن لے غزل یہ بلبل ہندوستاں کہیں
شاعرؔ وہ آج پھر وہیں جاتے ہوئے ملے
دشمن کے سر پہ ٹوٹ پڑے آسماں کہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |