مس اڈنا جیکسن

مس اڈنا جیکسن (1955)
by سعادت حسن منٹو
325055مس اڈنا جیکسن1955سعادت حسن منٹو

۔۔۔کالج کی پرانی پرنسپل کے تبادلے کا اعلان ہوا، طالبات نے بڑا شور مچایا۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی محبوب پرنسپل ان کے کالج سے کہیں اور چلی جائے۔ بڑا احتجاج ہوا۔ یہاں تک کہ چند لڑکیوں نے بھوک ہڑتال بھی کی، مگر فیصلہ اٹل تھا۔۔۔ ان کا جذباتی پن تھوڑے عرصے کے بعد ختم ہوگیا۔

نئی پرنسپل نے پرانی پرنسپل کی جگہ لے لی۔ طالبات نے شروع شروع میں اس سے بڑی نفرت و حقارت کا اظہار کیا مگر اس نے ان سے کچھ نہ کہا۔ حالانکہ اس کے اختیار میں سب کچھ تھا۔ وہ ان کو کڑی سے کڑی سزا دے سکتی تھی۔ہر وقت اس کے پتلے پتلے ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرتی رہتی۔۔۔وہ سرتا پا تبسم تھی۔ کالج میں کھلی ہوئی کلی کی طرح آتی اور جب واپس جاتی تو دن بھر گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود اس میں مرجھاہٹ کے کوئی آثار نہ ہوتے۔

تھوڑے عرصے کے بعد۔۔۔ کالج کی طالبات اس کی گرویدہ ہوگئیں۔ ہر وقت اس سے چمٹی رہتیں۔ ایک دن، جب کوئی جلسہ تھا، مس اڈنا جیکسن نے تقریر کی اور کہا، ’’میں بہت خوش ہوں کہ تم اب مجھ سے مانوس ہوگئی ہو۔ شروع شروع میں جیسا کہ میں جانتی ہوں تم مجھ سے نفرت کرتی تھیں، میری پیاری بچیو، میں یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئی تھی۔ مجھے یہاں میرے حاکموں نے بھیجا تھا۔۔۔ ایک دن آنے والا ہے جب تم سنجیدہ اور متین بن جاؤ گی۔تمہاری گود میں بچے کھیلتے ہوں گے، تم سے بھی کہیں زیادہ شریر اور نٹ کھٹ۔۔۔ میں تمہاری پرنسپل ہوں۔ لیکن دل میں یہ خیال کبھی نہ لانا کہ میں کوئی ظالم عورت ہوں۔۔۔ میں تم سب سے محبت کرتی ہوں۔۔۔ اور چاہتی ہوں کہ مجھ سے بھی کوئی محبت کرے۔‘‘

یہ تقریر سن کر لڑکیاں بہت متاثر ہوئیں اور مس جیکسن کی محبت میں اور زیادہ گرفتار ہوگئیں۔ سب دل میں نادم تھیں کہ انھوں نے ایسی شریف اور شفیق پرنسپل کے آنے پر کیوں اعتراض کیا۔

ایک دن بی اے کی ایک لڑکی طاہرہ، جس نے مس جیکسن کی آمد پر آوازے کسے تھے اور بڑے سخت الفاظ استعمال کیے تھے، پرنسپل کے کمرے میں تھی۔طاہرہ کا سر جھکا ہوا تھا۔ خوف و ہراس اس کے چہرے پر پھیلا ہوا تھا۔ پرنسپل کاغذات پر دستخط کررہی تھی۔ بے حد منہمک تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اس نے طاہرہ کی سسکیوں کی آواز سنی تو اس کو اس کی موجودگی کا علم ہوا۔ ایک دم چونک کر اس نے اپنا ننھا سا فونٹین پین ایک طرف رکھا اور اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس کو یاد نہیں آرہا تھا کہ اس نے طاہرہ کو بلایا ہے۔

’’کیا بات ہے طاہرہ؟‘‘ طاہرہ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، ’’آپ۔۔۔ آپ ہی نے تو مجھے یہاں طلب فرمایا تھا۔‘‘ ایک لحظے کے لیے مس جیکسن خالی الدماغ رہی، لیکن اسے فوراً یاد آگیا کہ معاملہ کیا ہے۔ طاہرہ کے نام ایک مرد کا محبت نامہ پکڑا گیا تھا۔ یہ اس کی ایک سہیلی ناہید نے مس جیکسن کے حوالے کردیا تھا۔یہ خط اس کی دراز میں محفوظ تھا۔ مس جیکسن کے مسکراتے ہوئے ہونٹ طاہرہ سے مخاطب ہوئے، ’’بیٹا۔۔۔ یہ کیا بات ہے؟‘‘

اس کے بعد اس نے میز کا دراز کھول کر خط نکالا اور طاہرہ سے کہا، ’’لو۔۔۔یہ تمہارا خط ہے پڑھ لو اور اگر چاہو تو مجھے ساری داستان سنا دوتاکہ میں تمہیں کوئی رائے دے سکوں۔‘‘ طاہرہ کچھ دیر خاموش رہی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کہے۔ پرنسپل مس جیکسن نے اٹھ کر اس کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا،’ ’طاہرہ! شرماؤ نہیں۔ ہرلڑکی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں۔‘‘ طاہرہ نے رونا شروع کردیا۔ بوڑھا چپراسی کسی کام سے اندر داخل ہوا تو مس جیکسن نے اس سے کہا، ’’نظام دین! ابھی تم باہر ٹھہرو۔۔۔ میں بلالوں گی تمہیں۔‘‘

جب وہ چلا گیا تو مس جیکسن نے بڑے پیار سے طاہرہ سے کہا، ’’محبت ایک عظیم جذبہ ہے۔ مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن تمہاری عمر کی لڑکیاں اکثر دھوکا کھا جایا کرتی ہیں۔۔۔ مجھے تمام واقعات بتا دو۔ میں تم سے عمر میں بہت بڑی ہوں مگر مجھ سے آج تک کسی نے محبت نہیں کی، لیکن میں نے کئی استوار اور نااستوار محبتیں دیکھی ہیں۔۔۔ بیٹا، مجھ سے گھبراؤ نہیں۔۔۔ بیٹھ جاؤ۔‘‘ طاہرہ اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔

پرنسپل اپنی گھومنے والی کرسی پر نشست اختیار کرتے ہوئے اپنی شاگرد سے بولیں، ’’اب دیر نہ لگاؤ۔۔۔بتا دو۔۔۔ مجھے بہت سے ضروری کام کرنے ہیں۔‘‘

طاہرہ کچھ دیر ہچکچاتی رہی۔ لیکن اس کے بعد اس نے اپنا دل کھول کے اپنی پرنسپل کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے بتایا کہ ایک نوجوان لیکچرار ہے جس سے وہ ٹیویشن لیتی ہے۔ قریب قریب ایک سال سے وہ باقاعدہ پانچ بجے اس کے گھرمیں آتا رہا ہے۔ اس کی باتیں بڑی دل فریب ہیں۔ شکل و صورت کے لحاظ سے بھی خوب ہے۔ فارسی کے اشعار کا مطلب سمجھاتا ہے تو ایک نقشہ کھینچ دیتا ہے۔ اس کی زبان میں غضب کی مٹھاس ہے۔ طاہرہ نے مزید بتایا کہ اس کے دل میں لیکچرار کے لیے جگہ پیدا ہوگئی۔ آہستہ آہستہ بے قرار رہنے لگی۔ اس کو ہر وقت اس کی یاد ستاتی۔ پانچ بجنے والے ہوتے تو اس کو یوں محسوس ہوتا کہ وہ مجسم گھڑی بن گئی ہے۔۔۔ اس کا رواں رواں ٹک ٹک کرنے لگتا۔

وہ اس سے زبانی تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی، اس لیے کہ شرم و حیا اجازت نہیں دیتی تھی۔ اس نے ایک رات لیکچرار کے نام خط لکھا۔۔۔ اس نے اپنی زندگی بھر میں ایسا خط کبھی نہیں لکھا تھا، حالانکہ وہ اپنے خاندان میں خط لکھنے کے معاملے میں کافی مشہور تھی کہ ہر بات بڑے سلیقے سے لکھتی ہے، لیکن یہ خط لکھتے ہوئے اسے بڑی دقتیں پیش آئیں۔القاب کیا ہوں، مضمون کیسا ہونا چاہیے، پھر یہ سوال بھی اس کے درپیش تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ یہ خط اس کے باپ کے حوالے کردے۔وہ ایک عرصے تک سوچتی رہی۔ اس کے دل میں کئی خدشے تھے لیکن آخر اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ خط ضرور لکھے گی۔ چنانچہ اس نے رائٹنگ پیڈ کے کئی کاغذ ضائع کرکے چند سطور اس لیکچرار کے نام لکھیں:

’’آپ بڑے اچھے استاد ہیں۔ مجھے اس طرح پڑھاتے ہیں جیسے۔۔۔ جیسے آپ کو مجھ سے خاص لگاؤ ہے۔ ورنہ اتنی محنت کون استاد کرتا ہے۔۔۔میرا تو یہ جی چاہتا ہے کہ ساری عمر آپ میرے استاد اور میں آپ کی شاگرد رہوں۔ بس اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں لکھ سکتی۔‘‘

یہ خط اس نے کئی دن اپنے پرس میں رکھا۔ اس کے بعد جرأت سے کام لے کر اس نے کاغذ کا یہ پرزہ اپنے استاد کی جیب میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ڈال دیا۔دوسرے روز جب وہ شام کو ٹھیک پانچ بجے آیا تو اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہ کیا۔ اسے سخت مایوسی ہوئی۔ دو گھنٹے کے بعد جب وہ چلا گیا تو اس نے بڑے چڑچڑے پن سے اپنی کتابیں اٹھائیں اور اپنے کمرے میں جانے لگی۔ ایک کتاب اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ طاہرہ نے بڑی بے دلی سے اٹھائی تو اس کے اوراق میں سے کاغذ کا ایک ٹکڑا جھانکنے لگا۔ اس نے یہ ٹکڑا نکالا۔ اس پر چند الفاظ مرقوم تھے۔ طاہرہ کے زخمی جذبات پر مرہم کے پھاہے لگ گئے۔ اس کے استاد نے یہ لکھا تھا:

’’مجھے تمہاری تحریر مل گئی ہے۔۔۔ میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں۔ زندگی بھر تمہارا استاد رہنے کا تو میں وعدہ نہیں کرسکتا لیکن خادم ضرور رہوں گا۔ میں استادی شاگردی سے تنگ آگیا ہوں۔ تمہاری غلامی اس سے ہزار درجے بہتر ہوگی۔‘‘

اس کے بعد دونوں میں کتابوں کے اوراق کی اوٹ میں خط و کتابت ہوتی رہی۔ لیکن طاہرہ کے والدین کو یکلخت شہر چھوڑنا پڑا، اس لیے کہ اس کے باپ ظہیر کی تبدیلی کسی سلسلے میں دوسرے شہر میں ہوگئی۔طاہرہ کو ہوسٹل میں داخل کردیا گیا، جس کی سپرنٹنڈنٹ مس جیکسن تھی۔ اس کا قیام اسی ہوسٹل میں تھا۔

کالج سے فارغ ہو کر آتی تو اپنے کمرے میں اکثر ناول پڑھتی رہتی،عجیب عجیب قسم کے۔ ہوسٹل کی لڑکیاں اس کے پاس آتیں اور اس کے کئی ناول چرا کے لے جاتیں اور مزے لے لے کر پڑھتیں۔ پھر واپس وہیں پررکھ دیتیں جہاں سے انھوں نے اٹھائے تھے۔۔۔ مس جیکسن کو لڑکیوں کی اس شرارت کا کوئی علم نہیں تھا۔۔۔ طاہرہ نے بھی کئی ناول پڑھے اور اس کا عشق اپنے استاد کے عشق سے بڑھتا گیا۔ وہ ہوسٹل سے باہر نکل نہیں سکتی تھی اس لیے اس نے ایک خط لکھا اور اسے کسی نہ کسی طریقے سے اپنے استاد تک پہنچا دیا۔یہ خط جو اس نوجوان لیکچرار نے جواب میں لکھا تھا، غلط ہاتھوں میں پہنچ گیا۔ یعنی ناہید کے پاس جس کو طاہرہ سے صرف اس لیے بغض تھا کہ وہ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوب صورت تھی۔۔۔ یہ خط اس نے پرنسپل کے حوالے کردیا۔

طاہرہ، جب اپنی ساری داستان سنا چکی، جو مس جیکسن نے بڑی دلچسپی لیتے ہوئے سنی تو اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد طاہرہ سے کہا، ’’اب تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

’’مجھے کچھ معلوم نہیں۔۔۔ آپ جو فیصلہ فرمائیں گی، مجھے منظور ہوگا۔‘‘

مس جیکسن اپنی کرسی پر سے اٹھیں اور کہا،’’نہیں طاہرہ، محبت کے معاملے میں مجھے فیصلہ دینے کا اختیار نہیں۔ یہ مذہب سے بھی زیادہ مقدس جذبہ ہے۔۔۔ تم خود بتاؤ۔‘‘

طاہرہ نے شرم سے بھری ہوئی آنکھیں جو نم آلود تھیں، جھکا کر صرف اتنا کہا،’’میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

مس جیکسن نے ٹھیٹ پرنسپلانہ انداز میں پوچھا، ’’کیا وہ بھی چاہتا ہے؟‘‘

’’اس نے ابھی تک اس خواہش کا اظہار نہیں کیا۔۔۔ لیکن وہ۔۔۔‘‘

’’میں سمجھتی ہوں۔ وہ بھی تو تم سے محبت کرتا ہے۔۔۔ اسے کیا عذر ہو سکتا ہے۔۔۔ لیکن کیا تمہارے والدین رضا مند ہو جائیں گے؟‘‘

’’ہرگز نہیں ہوں گے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’ اس لیے کہ وہ میری منگنی ایک جگہ کر چکے ہیں۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’ میرے خالہ زاد بھائی کے ساتھ۔‘‘

’’ ہم کرسچینوں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

’’ ہمارے ہاں تو اکثر ایسا ہوتا ہے۔‘‘

’’خیر چھوڑو اس بات کو۔۔۔ کیا میں تمہارے اس لیکچرار کو اپنے پاس بلا کر اس سے مفصل بات چیت کروں؟ طاہرہ یہ زندگی بھر کا سوال ہے، ایسا نہ ہوکوئی غلطی ہو جائے۔۔۔ میں عمر میں تم سے بہت بڑی ہوں۔ میں تمہیں صحیح مشورہ دوں گی۔ ایک مرتبہ تم مجھے اس سے مل لینے دو۔‘‘

طاہرہ نے شکریہ ادا کیا، ’’آپ ضرور ملیے لیکن۔۔۔اس سے کہہ دیجیے گا۔۔۔کہ۔۔۔‘‘

پرنسپل نے بڑی شفقت سے کہا، ’’رک کیوں گئی ہو۔۔۔ جو کچھ تم اس سے کہنا چاہتی ہو، مجھ سے کہہ دو۔‘‘

’’جی۔۔۔بس صرف اتنا کہ اگر اس کے قدم مضبوط نہ رہے تو میں خود کشی کرلوں گی۔۔۔ عورت زندگی میں۔۔۔ صرف ایک ہی مرد سے محبت کرتی ہے۔‘‘

محبت کا لفظ سنتے ہی پرنسپل مس اڈنا جیکسن کے دل کی جھریاں اور زیادہ گہری ہوگئیں۔ اس نے طاہرہ کے آنسو اپنے رومال سے بڑی شفقت کے ساتھ پونچھتے ہوئے رخصت کردیا۔ اس کے بعد اس نے گھنٹی بجا کر چپراسی کو اندر بلایا۔ اس نے بڑے ضروری کاغذات اس کے میز پر رکھے۔ اس نے سرسری نظر سے ان کو دیکھا۔ ایک کاغذ پر طاہرہ کے اس لیکچرار کے نام خط لکھا کہ وہ ازراہ کرم اس سے کسی وقت شام کو بورڈنگ ہاؤس میں ملے۔یہ خط اس نے لفافے میں ڈالا، پتہ لکھا اور چپراسی سے کہا کہ فوراً سائیکل پر جائے اور یہ لفافہ لیکچرار صاحب کو پہنچا دے۔چپراسی چلا گیا۔

شام کو مس اڈنا جیکسن اپنے کمرے میں بیٹھی پرچے دیکھ رہی تھی کہ نوکر نے اطلاع دی کہ ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔وہ سمجھ گئی کہ یہ صاحب کون ہیں، چنانچہ اس نے نوکر سے کہا، ’’انھیں اندر لے آؤ۔‘‘

طاہرہ کا استاد ہی تھا جو اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ مس جیکسن نے اس کا استقبال کیا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ جون کا مہینہ،سخت تپش تھی۔۔۔ مس جیکسن اس سے بڑے اخلاق کے ساتھ پیش آئی۔ نوجوان لیکچرار بہت متاثر ہوا۔ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ مس اڈنا جیکسن طاہرہ کے بارے میں بات شروع کرنے ہی والی تھی کہ اس پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ گیا۔ اس کو یہ مرض بہت دیر سے لاحق تھا۔ لیکچرار بہت فکر مند ہوا۔ گھر میں کوئی نوکر نہیں تھا، اس لیے کہ وہ چھٹی کرکے کہیں باہر سو رہے تھے۔ اس نے خود ہی جو اس کی سمجھ میں آیا، کیا۔

جب۔۔۔کالج گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد کھلا تو لڑکیوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ ان کی پرنسپل مس اڈنا جیکسن سے اس لیکچرار کی شادی ہو گئی ہے، جس کو طاہرہ سے محبت تھی۔۔۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ لیکچرار لطیف کی عمر پچیس برس کے قریب ہوگی اور مس اڈنا جیکسن کی لگ بھگ پچاس برس۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.