مشام بلبل میں رشک گل کی ہنوز بو بھی نہیں گئی ہے
مشام بلبل میں رشک گل کی ہنوز بو بھی نہیں گئی ہے
ابھی وہ نام خدا ہے غنچہ نسیم چھو بھی نہیں گئی ہے
نہ عشق سرمے کا نے مسی کا نہ شوق غمزے کا نے ہنسی کا
گماں ہو گر تم کو آرسی کا سو رو بہ رو بھی نہیں گئی ہے
بلا کو اس کی خبر ہے کہتے ہیں کس کو معشوق کیا ہے عاشق
ہنوز کانوں میں اس پری کے یہ گفتگو بھی نہیں گئی ہے
یقیں نہیں مجھ کو قیس گریاں کے حال سے اس کو آگہی ہو
نکل کے مطلب سے اپنے لیلیٰ کنار جو بھی نہیں گئی ہے
شہیدیؔ اتنی گماں پرستی نشہ میں سب بھول بیٹھے ہستی
ہوئی ہے اس سے ہی تم کو مستی جو تا گلو بھی نہیں گئی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |