مشکل ہے کہ پہلو سے جدا دل نہیں ہوتا
مشکل ہے کہ پہلو سے جدا دل نہیں ہوتا
اور میرے ستانے سے وہ غافل نہیں ہوتا
پردے میں اگر اس کے مرا دل نہیں ہوتا
آئینہ رخ یار کے قابل نہیں ہوتا
جب قصد مصمم ہے تو ہر کار ہے آساں
جو کام کہ مشکل ہے وہ مشکل نہیں ہوتا
گر پردہ نشینی تجھے منظور تھی دلبر
دل میرا ترے واسطے محمل نہیں ہوتا
مے خانہ کو جاتا ہوں یہ تکرار عبث ہے
ناصح تو کسی طور سے قائل نہیں ہوتا
سفاک کہا میں انہیں ہنس کے وہ بولے
ہر صاحب شمشیر تو قاتل نہیں ہوتا
دیدار طلب کا طالب ہے اسے جلوہ دکھا دے
عاشق تو زر و مال کا سائل نہیں ہوتا
وہ نور مبیں جو کہ تجلئ لقا ہے
اس کا بجز آدم کوئی حامل نہیں ہوتا
میرا تو پتا خاک بھی رہتا نہ جمیلہؔ
گر فضل الٰہی مرے شامل نہیں ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |