مطبوع یار کو ہے جفا اور جفا کو ہم
مطبوع یار کو ہے جفا اور جفا کو ہم
کہتی ہے بد عدو کو وفا اور وفا کو ہم
دشنام بھی سنی نہ تمہاری زبان سے
ہے کوستی اثر کو دعا اور دعا کو ہم
افغانِ چرس رس کی لپٹ نے جلا دیا
نامے کو ڈھونڈتی ہے صبا اور صبا کو ہم
لاتا ہے ظنِ نیم تبسم سے جوش میں
دل کو قلق، قلق کو بُکا اور بُکا کو ہم
درماں مریضِ غم کا ترے کچھ نہ ہو سکا
چھیڑے ہے چارہ گر کو دوا اور دوا کو ہم
پھر کیوں نہ دیکھنے سے عدو کے ہو منفعل
پھر اس کو دوکھتی ہے حیا اور حیا کو ہم
ہیں جاں بلب کسی کے اشارے کی دیر ہے
دیکھے ہے اس نگہ کو قضا اور قضا کو ہم
ہے آرزوئے شربتِ مرگ اب تو شیفتہ
لگتی ہے زہر ہم کو شفا اور شفا کو ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |