مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے
مطلب کی بات شکل سے پہچان جائیے
میں کیوں کہوں زبان سے خود جان جائیے
آئے وہ نزع میں بھی نہ حسرت نکالنے
اب زیر خاک لے کے سب ارمان جائیے
اس بھولی بھولی شکل کے ہو جائیے نثار
ان بھولی بھولی باتوں کے قربان جائیے
بانہیں گلے میں ڈالیے بھی اب ہنسی خوشی
یہ ہے شب وصال کہا مان جائیے
کیا تھا جو مسکراتے ہوئے کہہ گئے ابھی
خاک آ کے میرے در کی ذرا چھان جائیے
مہماں نواز ان سا کوئی دوسرا نہیں
جی میں ہے ان کے گھر کبھی مہمان جائیے
ہے قصد آج حضرت دل ان کی بزم کا
اللہ آپ کا ہے نگہبان جائیے
جا بیٹھیے تنک کے ذرا مجھ سے پھر الگ
بے کچھ کہے سنے بھی برا مان جائیے
بدیمن میرے حق میں ہے صبح شب وصال
کھولے ہوئے نہ بال پریشان جائیے
کیا تاب ہے ریاضؔ تمہاری زبان کی
رنگینئی کلام کے قربان جائیے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |