مطلب کی تم سنو تو ذرا کوئی کچھ کہے
مطلب کی تم سنو تو ذرا کوئی کچھ کہے
جب بے سنے خفا ہو تو کیا کوئی کچھ کہے
ہم آپ چھیڑ چھیڑ کے کھاتے ہیں گالیاں
کانوں کو پڑ گیا ہے مزہ کوئی کچھ کہے
بندے ہیں ہم تو عشق کے اے شیخ و برہمن
پروا نہیں ہمیں بخدا کوئی کچھ کہے
کم بخت نامراد تو مدت سے ہے خطاب
جی چاہتا ہے اس سے سوا کوئی کچھ کہے
ناصح کہے سنے پہ ہمارا نہیں عمل
جو جی میں آ گیا وہ کیا کوئی کچھ کہے
اے داغؔ اس کی بزم میں ہم گل کھلائیں گے
اس کا ہے انتظار ذرا کوئی کچھ کہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |