معرکے میں عشق کے سر سے گزرنے سے نہ ڈر

معرکے میں عشق کے سر سے گزرنے سے نہ ڈر
by ولی اللہ محب

معرکے میں عشق کے سر سے گزرنے سے نہ ڈر
گر اٹھاتا ہے تو یہ جوکھوں تو مرنے سے نہ ڈر

جان من تیرا گریباں گیر ہو سکتا ہے کون
عاشقوں کے خوں میں تو دامن کے بھرنے سے نہ ڈر

زاہدا تو صحبت رنداں میں آیا ہے تو سن
ترک گالی کا نہ کر پگڑی اترنے سے نہ ڈر

گر سبک باری کی خواہش ہے تو اس قاتل سے پھر
زندگی اک بوجھ ہے سر کا اترنے سے نہ ڈر

اس کے ہر حلقے میں ہیں دل سے پریشانوں کے ساتھ
یہ نہ کہہ ہمدم کہ زلف اوس کی بکھرنے سے نہ ڈر

اس کے کوچہ میں قدم رکھتے ہوئے کٹتا ہے سر
سر کو رکھ لے ہاتھ پر اور پاؤں دھرنے سے نہ ڈر

دل دیا تو نے محبؔ اب خوف ہے کس چیز کا
دودو باتیں ذہن سے جس وقت کرنے سے نہ ڈر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse