معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے

معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
by آرزو لکھنوی

معصوم نظر کا بھولا پن للچا کے لبھانا کیا جانے
دل آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چلانا کیا جانے

کہہ جاتی ہے کیا وہ چین جبیں یہ آج سمجھ سکتے ہیں کہیں
کچھ سیکھا ہوا تو کام نہیں دل ناز اٹھانا کیا جانے

چٹکی جو کلی کوئل کوکی الفت کی کہانی ختم ہوئی
کیا کس نے کہی کیا کس نے سنی یہ بتا زمانہ کیا جانے

تھا دیر و حرم میں کیا رکھا جس سمت گیا ٹکرا کے پھرا
کس پردے کے پیچھے ہے شعلہ اندھا پروانہ کیا جانے

یہ زورا زوری عشق کی تھی فطرت ہی جس نے بدل ڈالی
جلتا ہوا دل ہو کر پانی آنسو بن جانا کیا جانے

سجدوں سے پڑا پتھر میں گڑھا لیکن نہ مٹا ماتھے کا لکھا
کرنے کو غریب نے کیا نہ کیا تقدیر بنانا کیا جانے

آنکھوں کی اندھی خود غرضی کاہے کو سمجھنے دے گی کبھی
جو نیند اڑا دے راتوں کی وہ خواب میں آنا کیا جانے

پتھر کی لکیر ہے نقش وفا آئینہ نہ جانو تلووں کا
لہرایا کرے رنگیں شعلہ دل پلٹے کھانا کیا جانے

جس نالے سے دنیا بے کل ہے وہ جلتے دل کی مشعل ہے
جو پہلا لوکا خود نہ سہے وہ آگ لگانا کیا جانے

ہم آرزوؔ آئے بیٹھے ہیں اور وہ شرمائے بیٹھے ہیں
مشتاق نظر گستاخ نہیں پردہ سرکانا کیا جانے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse