مغز بہار اس برس اس بن بچا نہ تھا
مغز بہار اس برس اس بن بچا نہ تھا
چین جبیں بن ایک گل اب کی ہنسا نہ تھا
جب لگ میں صبح حسن بتوں سے ملا نہ تھا
دل ہوئے گل سا ہات سے میرے گیا نہ تھا
کیا کی وفا کہ موج گہر سا ہے سر سے بند
خنجر جز ایک دم کا مرا آشنا نہ تھا
جا کر فنا کے اس طرف آسودہ میں ہوا
میں عالم عدم میں بھی دیکھا مزا نہ تھا
اس یار کاروانی کے وقت وداع ہائے
بے نالہ ایک اشک مرا جوں درا نہ تھا
ہوتے ہی جلوہ گر ترے اے آفتاب رو
سینے میں جیسے شبنم گل دل رہا نہ تھا
منہ موڑ بت کدہ سے حرم کو چلا ہے شیخ
عزلتؔ مگر ہے کعبہ ہی میں یہاں خدا نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |