ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور

ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور
by ظہیر دہلوی

ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور
کیا گھر میں خدا اور ہے غربت میں خدا اور

تم سامنے آتے ہو تو چھپتے ہو سوا اور
پردے کی حیا اور ہے آنکھوں کی حیا اور

کچھ آگ لگائے گا نئی شعلۂ رخسار
کچھ رنگ دکھائے گا ترا رنگ حنا اور

انسان وہ کیا جس کو نہ ہو پاس زباں کا
یہ کوئی طریقہ ہے کہا اور کیا اور

آ پہنچے ہیں منزل کی نواہی میں ظہیرؔ اب
ہاں پائے طلب ہاریو ہمت نہ ذرا اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse