مل خون جگر میرا ہاتھوں سے حنا سمجھے
مل خون جگر میرا ہاتھوں سے حنا سمجھے
میں اور تو کیا کوسوں پر تم سے خدا سمجھے
سمجھانے کی جو باتیں کیں میں نے دلا تجھ سے
اے عقل کی دشمن سو تیری تو بلا سمجھے
دل میں مرے چٹکی لی ایسی ہے کہ درد اٹھا
معقول چے خوش اے واہ آپ اس کو ادا سمجھے
اے بو لہب نخوت سیدھے ہیں اگر سچ مچ
تو آج سے صاحب کو ہم اپنا چچا سمجھے
صاحب نے نہ کی یاری وحشت سے پری سے تو
اے شیخ جنوں تم کو ہم خواجہ سرا سمجھے
ہنگامۂ محشر بھی گر سامنے آیا تو
اس کو بھی تماشائی ایک سانگ نیا سمجھے
وہ دشت محبت میں رکھے قدم اے انشاؔ
سر اپنے کو آگے ہی جو تن سے جدا سمجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |