ممتحن کا پان

ممتحن کا پان
by مرزا عظیم بیگ چغتائی
319589ممتحن کا پانمرزا عظیم بیگ چغتائی

ریل کے سفر میں اگر کوئی ہم مذاق مل جائے تو تمام راہ مزے سے کٹ جاتی ہے۔ گو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مل جائے تو وہ اس کے ساتھ وقت گزاری کرلیتے ہیں، مگر جناب میں غیر جنس سے بہت گھبراتا ہوں اور خصوصاً جب وہ پان کھاتا ہو۔ اب تو نہیں لیکن پہلے میرا یہ حال تھا کہ پان کھانے والے مسافر سے لڑائی تک لڑنے کو تیار ہو جاتا تھا۔ اگر جیت گیا تو خیر ورنہ شکست کی صورت میں خود وہاں سے ہٹ جاتا تھا۔

میں ایک بڑے ضروری کام سے دہلی سے آگرہ جا رہا تھا۔ خوش قسمتی سے ایک بہت دلچسپ ساتھی غازی آباد سے مل گئے۔ یہ ایک ہندو بیرسٹر کے لڑکے تھے اور ایم ایس سی میں پڑھتے تھے۔ خورجہ کے اسٹیشن پر ایک صاحب اور وارد ہوئے۔ یہ بھی ہم عمر ہونے کی وجہ سے ہماری ہی بنچ پر آئے اور بہت سے لوگ آگئے اور منجملہ ان لوگوں کے میں نے نہایت بے کلی سے دیکھا کہ ان میں ایک صاحب پان کھانے والے ہیں۔ ان حضرت نے ہماری ہی طرف رخ کیا، اور اِدھر میں گھبرایا۔ انہوں نے میری بنچ پر بیٹھنے کی نیت سے قلی سے اسباب میری طرف رکھوانا چاہا۔

’’آپ اس طرف نہایت آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔‘‘ میں نے ایک کھچا کھچ اسباب اور مسافروں سے بھری ہوئی بنچ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ انہوں نےشاید اس کو بدتمیزی خیال کر کے برا مانتے ہوئے کہا، ’’جناب خود تکلیف کریں۔‘‘

’’یہ جگہ گھری ہوئی ہے۔‘‘ میں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کج خلقی سے کہا۔ مگر وہ اتنے میں اسباب رکھوا کر بیٹھ بھی چکے تھے۔ میری طرف انہوں نے غور سے دیکھا۔۔۔ میں ان کی طرف نفرت نہیں بلکہ غصہ سے دیکھ رہا تھا کیونکہ مجھے پان کھانے والے سے اتنی نفرت نہیں ہوتی جتنا کہ اس پر غصہ آتا تھا (اب بالکل نہیں آتا۔) یہ حضرت فاختی رنگ کی شیروانی پہنے ہوئے تھے۔ ترکی ٹوپی تھی۔ شاید چالیس یا پینتالیس برس کی عمر تھی۔ کپڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے۔ ریل چلی تو میں اس فکر میں تھا اب ضرور یہ اپنی ڈبیہ میں سے نکال کر پان کھائیں گے، کیونکہ ان کی منہ کی رفتار سےایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے پان اب ختم ہونے والا ہے۔ اتنے میں میری نظر ان کے ہینڈ بیگ پر پڑی، جس سے میں نے فوراً معلوم کر لیا کہ یہ حضرت کسی بیرسٹر صاحب کے منشی ہیں، کیونکہ اس پر لکھا تھا، ’’ٹی ایچ۔ بار ایٹ لاء۔‘‘

میں نہ اب بداخلاق یا کج خلق ہوں اور نہ پہلے کبھی تھا، مگر پان کھانے والے مسافروں سے مجھے چونکہ بغض تھا، لہٰذا میں اب سوچ رہا تھا کہ ان کو یہاں سے کس طرح ہٹاؤں، مگر تھوڑی ہی دیر میں اپنے دونوں ساتھیوں سے باتوں میں مشغول ہو گیا۔ زیادہ دیر باتیں کرتے نہ گزری تھی کہ کھٹکا ہوا۔ سگریٹ کیس کے کھٹکے اور پان کی ڈبیا کے کھٹکے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حالانکہ ان کی طرف میری پشت تھی مگر میں جان گیا اور پان کی ڈبیا کا گیلا گیلا سرخ کپڑا میری نظر کے سامنے بغیر دیکھے ہی آگیا۔ مڑ کر دیکھا تو ان کے ہاتھ میں پان کا ایک ٹکڑا ہے۔ اخلاقاً انہوں نے میرے سامنے پیش کیا۔ یہ گویا تازیانہ ہوگیا۔ میں نے جل کر کہا، ’’مجھے اس حماقت سے معاف کیجیے۔‘‘

میں نے دیکھا کہ اس جملے نے کیا کام کیا مگر انہوں نے سوائے ایک سر کی جنبش کے زبان سے کچھ نہ کہا۔ نہ تو میں شرمندہ تھا اور نہ مجھ کو افسوس تھا۔ تھوڑی دیر بھی نہ گزری تھی کہ انہوں نے کھڑکی کے باہر سر ڈال کر تھوکا۔ میں نے مڑ کر برجستہ کہا، ’’قبلہ اگر یہ دھندا کرنا ہے تو براہ کرم دوسری جگہ تلاش کیجیے۔‘‘

’’کیا فرمایا جناب نے؟‘‘

’’میں نے یہ فرمایا کہ جناب یہ لال پچکاریاں کسی دوسری جگہ چھوڑیں۔‘‘ انہوں نے نہایت ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا، ’’معاف کیجیے گا میں اس قسم کی گفتگو کا عادی نہیں۔‘‘

’’اگر جناب ایسی گفتگو کے عادی نہیں تو میں بھی اس کا عادی نہیں کہ میرے پاس بیٹھ کر گندگی پھیلائیں۔۔۔‘‘

’’جناب آپ ذرا۔۔۔‘‘

’’لا حول و لا قوۃ۔‘‘ میں نے بھی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’ذرا غور تو کیجیے کہ بکری کی طرح پتے چبانا۔۔۔ قسم خدا کی۔‘‘ میں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کرکے کہا، ’’یہ چھالیا بھی خوب ہے۔ گویا ایندھن یا لکڑی چبا رہے ہیں۔‘‘

مارے غصہ کے ان حضرت کا منہ لال ہوگیا، مگر نہایت ہی تحمل سے انہوں نے بالکل خاموش ہوکر میری طرف سے منہ موڑ لیا اور سنی ان سنی ایک کردی۔ ’’آپ کو یہ نہیں (کہنا) چاہیے تھا۔‘‘ میرے ساتھی نے میری بداخلاقی کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ کو پان سے کتنی نفرت ہے۔‘‘

(۲)

ہمارے نئے ساتھی جو غازی آباد سے بیٹھے تھے، عجب کہ کلاس فیلو نکلے۔ انہوں نے بھی ایل ایل بی، فائنل کا امتحان علی گڑھ سے دیا تھا اور میں نے بھی دیا تھا۔ ایک دوسرے کو قطعی نہ جانتے تھے کیونکہ جماعت میں پونے دو سو لڑکے تھے اور رات کو لیکچر ہوتے تھے۔ اتفاق کی بات نظر ایک دوسرے پر نہ پڑی تھی، یا اگر کبھی پڑی ہوگی تو خیال نہ رہا ہوگا۔ دوسرے صاحب کو اس پر تعجب ہوا۔ امتحان کا نتیجہ ابھی شائع نہ ہوا تھا، صرف پچیس دن امتحان کو گزرے تھے۔ لامحالہ امتحان کا ذکر ہونے لگا۔ ان کے سب پرچے اچھے ہوئے تھے اور میرے بھی سب پرچے اچھے ہوئے تھے۔ گزشتہ سال وہ سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے اور میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوا تھا۔ اپنے پاس ہونےکا مجھ کو قطعی یقین تھا اور وہ حضرت کہنے لگے کہ ’’جناب! سیکنڈ ڈویژن تو آپ کی کہیں گئی ہی نہیں۔۔۔‘‘ یہ جملہ میرے لیے کس قدر خوشگوار تھا؟ دل سے خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ تعلیم کی آخری منزل بھی ختم ہوئی کیونکہ مجھ کو اپنے پاس ہونے کا قطعی یقین تھا۔ اس میں شبے تک کی گنجائش ہی نہ تھی۔ تا وقتیکہ کوئی غیرمعمولی واقعہ رجسٹرار یونیورسٹی کے دفتر میں پیش نہ آجائے۔

ہر پرچے کا ذکر کیا گیا، اور ہر پرچے میں کتنے نمبر ملنے کی امید تھی اس کا اندازہ لگایا گیا اور کم از کم جو اندازہ لگایا وہ یہ تھا کہ سیکنڈ ڈویژن تو کہیں گئی نہیں ہے۔ کس جگہ وکالت شروع کی جائے گی، کچھ اس پر بحث ہوتی رہی، پھر وکالت نہ چلنے کے امکان پر گفتگو اس پہلو سے کی گئی کہ دونوں طرف سے اس کی خوب تردید ہوئی۔ علی گڑھ کا اسٹیشن آیا اور وہ صاحب جو خورجہ سے بیٹھے تھے، اتر گئے۔ اترتے وقت ہم نے ایک دوسرے کے رول نمبر مع نام و پتہ لکھ لیے اور خط و کتابت کا وعدہ بھی کیا۔۔۔ (ابھی تک نہ انہوں نے مجھے خط لکھا اور نہ میں نے انہیں۔)

علی گڑھ سے گاڑی چلی۔ ایک بات میں نے عجیب نوٹ کی۔ اب تک تو وہ پان کھانے والے حضرت کچھ رنجیدہ اور کبیدہ تھے مگر اب وہ میری طرف بڑی دیر سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے سے تمام غصہ رفوچکر ہو چکا تھا۔ شاید وہ صاف دل تھے اور میری بداخلاقی کو بھول چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’’آپ نے امسال ایل ایل بی فائنل کا امتحان دیا ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈبیا کھولی، اور میں نے بمشکل ’’جی ہاں‘‘ کہا تھا کہ انہوں نے ایک پان مجھے پھر پیش کیا۔ مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’آپ کو پان سے نفرت ہے، مگر آپ اس کو کھا کر دیکھیں۔‘‘

میں نے ان کی طرف دیکھا۔۔۔ کیا یہ ممکن تھا کہ وہ تمام سنجیدگی کو رخصت کر کے مجھ کو چڑا رہے تھے، تاکہ بدلہ لیں۔۔۔ قطعی یہی ہے۔۔۔ یہ خیال کرتے ہی مجھ کو سخت غصہ آیا۔۔۔ ان کے چہرے سے واقعی یہ ظاہر ہوتا تھا کیونکہ ان کے چہرے پر ایک شرارت آمیز تبسم تھا۔ انہوں نے پان اور آگے بڑھایا اور میں نے اس کا جواب یہ بہتر سمجھا کہ تسلیم کرکے ان سے لے کر کھڑکی میں سے باہر پھینک دیا۔ مجھے یقین ہوا کہ میں کامیاب رہا۔ مگر وہ حضرت بجائے خفا ہونے کے اب شاید مجھے تختۂ مشق بنانے پر تلے ہوئے تھے۔ دوسرا پان پیش کرکے بولے، ’’اگر اب اس کو بھی آپ نے پھینک دیا تو عمر بھر پچھتانا پڑے گا۔‘‘

میں بدتمیز و بدگو یا زبان دراز نہیں، مگر منہ سے کچھ سخت جملہ نکلتے نکلتے رہ گیا۔ لیکن پھر بھی بجائے ان کے برا کہنے کے پان کی مذمت کرنے لگا اور بوجہ پان کے گندہ ہونے کے اس کے چھونے سے مجبوری ظاہر کی۔

’’معاف کیجیے گا۔‘‘ انہوں نے پان کھا کر کہا، ’’آپ میں تہذیب نہیں ہے۔‘‘ یہ الفاظ انہوں نے رویہ بدل کر کچھ سنجیدگی سے کہے۔ میں نے کہا، ’’جی ہاں آپ صحیح فرماتے ہیں، لیکن مجھ کو اس پر فخر ہے کہ پان کھانے والوں کی بدتہذیبی کا جواب بدتہذیبی سے دوں۔‘‘

’’ماشاء اللہ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اپنا سوٹ کیس کھولنے لگے۔ میں اپنے ساتھی سے جو غازی آباد سے میرے ساتھ بیٹھے تھے، باتیں کرنے لگا کہ اتنے میں انہوں نے میرا بازو پکڑ کر اپنی طرف متوجہ کرکے ایک کاپی میرے سامنے کر کے کہا، ’’آپ اس خط کو پہچانتے ہیں؟‘‘

میں کچھ سٹپٹا سا گیا، اور کچھ عقل نے کام نہ کیا۔ میں نے ان حضرت کے چہرے کی طرف دیکھا جو میرے سٹپٹا جانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ میں علاوہ گھبرانے کے سخت خفیف سا ہو رہا تھا۔۔۔ یہ واقعہ تھا کہ میرے سامنے محمڈن لاء (قانون محمدیؐ) کے امتحان کی کاپی تھی۔ اس پر سرخ رنگ کے نمبر اس طرح دیے ہوئے تھے ۱۰+۶۵ گویا میں نے سو نمبروں میں سے پچھتر نمبر پائے تھے۔ نمبروں کو دیکھ کر کچھ خوشی سی ہوئی تھی کہ وہ بولے، ’’آپ نے پرچہ بہت اچھا کیا تھا اور آپ نے ۶۵ نمبر حاصل کیے تھے لیکن چونکہ آپ نے قانون کے ان حوالے کے علاوہ تمام ان احادیث کا بھی حوالہ دیا تھا جن پر قانون کی دفعات اور سوالات اور جوابات کا دارومدار تھا لہٰذا میں نے آپ کو دس نمبر اور دیے تھے۔ لیکن اب مجھ کو معلوم ہوا کہ آپ اسلامی قانون تو بڑی چیز ہے، اسلامی تہذیب سے بھی ناواقف ہیں۔ لہٰذا میری دانست میں تو آپ کو کل ۱۰ نمبر سے زائد نہ ملنا چاہئیں۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے میرے اور میرے ساتھی کے سامنے سرخ پنسل جیب سے نکال کر ۶۵نمبر کو سرخی سے کاٹ دیا اور اپنے وہاں دستخط بھی کر دیے۔ اب مجھ کو ان حروف کے معنی بھی معلوم ہوگئے تھے جو میں نے ان کے ہینڈ بیگ پر لکھے تھے۔

یہ حضرت میرے ممتحن تھے۔۔۔ میری حالت جو تھی وہ تھی، مگر میرے ساتھی جو خود طالب علم تھے سخت متعجب اور متاثر تھے۔ دراصل ہم دونوں ہی ہکا بکا تھے۔ میری کاپی وہ اطمینان سے اپنے سوٹ کیس میں رکھتے ہوئے بولے، ’’کم از کم تین سال تک تو آپ پاس ہونے کا خیال ہی ترک فرما دیں۔ کیونکہ میں ممتحن ضرور ہوں گا اور آپ کو فیل کروں گا، کیونکہ میرا خیال ہے کہ ایک بدتہذیب شخص اس سے کم عرصے میں تہذیب نہیں سیکھ سکتا۔‘‘

میں اس کا جواب سختی سے بھلا کیسے دیتا، میرے تو ہوش ہی بجا نہ تھے۔ وہ غیر متعلق ہوکر اپنا چہرہ اخبار سے چھپائے ہوئے دوسری بنچ پر جا بیٹھے۔ تھوڑی دیر بعد جب ذرا دل کی دھڑکن کم ہوئی تو میرے ساتھی نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گفتگو کرنا شروع کی۔ خوشامد کا خیال ہی نہیں تھا، کہنے لگے کہ ’’میں گواہ ہوں آپ ان پر دعویٰ کر دیجیے گا۔‘‘ شاید انہوں نے یہ سن لیا، جو اخبار پھینک کر بولے، ’’شاید آپ دونوں صاحبوں سے قانون میں زیادہ جانتا ہوں، جناب من! اگر یہ ممکن ہوتا تو ہر ممتحن پر طالب علم ایک گواہ تلاش کر کے مقدمہ دائر کر دیتے۔ خواہ واقعہ ہو یا نہ ہو۔ میں آپ دونوں صاحبان کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا فیصلہ اٹل ہے۔ آپ شوق سے دعویٰ کریں۔‘‘

میں تو چپ تھا مگر میرے ساتھی نے ان سے بحث کرنا شروع کی، مگر تھوڑی دیر میں مجبوراً مجھے ان کا منہ بند کرنا پڑا کیونکہ ممتحن صاحب غصہ ہوئے جاتے تھے۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد میرے ہمدرد ساتھی پھر ممتحن صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور نرمی کی تلقین کر رہے تھے۔ میں چپ بیٹھا دعا مانگ رہا تھا کہ خدا کرے یہ راضی ہو جائیں، مگر توبہ کیجیے۔ ’’میری جان مت کھائیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اخبار پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔

(۳)

ہاتھرس کا اسٹیشن قریب آ رہا تھا اور میرے ساتھی اترنے والے تھے۔ ممتحن صاحب اپنی پان کی ڈبیا لینے اٹھے۔ انہوں نے ڈبیا کھول کر ایک پان نکالا اور میرے سامنے پیش کیا۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ میں نے معصومیت سے رنجیدہ صورت بنائے ہوئے ان کی طرف دیکھا۔ میرا ہاتھ خود بڑھ گیا۔۔۔ آپ یقین کریں کہ میں پان کھا رہا تھا۔

’’چھا لیا تو لیجیے!‘‘ ممتحن صاحب نے بٹوا سامنے کرتے ہوئے کہا۔ کیونکہ میں بغیر چھا لیا کے پان کھا رہا تھا اور وہ قریب الختم تھا، انکار کرتے ڈر لگا لہٰذا لے کر منہ میں ڈال لی۔ وہ اپنی جگہ پھر جا بیٹھے اور یہاں چھالیاں ایسی معلوم ہو رہی تھی جیسے منہ کو کوئی چھیل رہا ہے، حالانکہ ممتحن صاحب میری طرف دیکھ نہیں رہے تھے، مگر پھر بھی میں نے تھوکنا مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں دیکھ نہ لیں۔ چونکہ قطعی عادت نہ تھی، مجھے چھا لیا مصیبت معلوم ہونے لگی۔ لیکن میں نے چبا چبا کر اس کو سرمہ کر ڈالا۔ پان کھانے کے قواعد کی رو سے اس منزل پر پہنچ کر پان کھانے والا تھوک سکتا ہے، مگر مجھ کو شاید معلوم نہ تھا۔ گو دیکھا تو تھا کہ لوگ اگال کو تھوک دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں چھا لیا کا پھوک رہ گیا۔ چونکہ ضرورت سے زیادہ کھالی تھی لہٰذا اتنی مقدار نگل بھی نہ سکتا تھا، بڑی دیر تک منہ میں پھراتا رہا پھر تھوکنے کے لیے بیت الخلا کو بہتر سمجھا تاکہ ممتحن صاحب نہ دیکھ سکیں۔ وہاں جو چھالیا تھوک کر نکلا تو ممتحن کچھ تحکمانہ لہجہ میں بولے، ’’کیا آپ نے پان تھوک دیا؟‘‘ میں سن سا ہو گیا، اور جھوٹ بولا، ’’جی نہیں!‘‘ مگر نہایت ہی مردہ آواز سے کہا۔

اس دوران میں میرے ساتھی، گو ایم ایس سی کے طالب علم تھے، مگر میرے چہرے کو فلسفیانہ انداز سے دیکھ رہے تھے۔ میرا چہرہ واقعی ہوگا بھی اس لائق کیونکہ خفت، حماقت، رنج، تکلیف وغیرہ وغیرہ علاوہ گھبراہٹ اور پریشانی کے ضرور میرے چہرہ سے عیاں ہو رہی ہوگی۔ ہاتھرس کا اسٹیشن آیا اور وہ اتر گئے۔

(۴)

میرے ساتھی کے چلے جانے کے بعد اب میں نہ معلوم کن کن خیالات میں غرق تھا۔۔۔ خوشامد کرو۔۔۔ کبھی کی نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آتی ہی نہیں۔۔۔ مگر ہاتھ جوڑنے سے کام بن جائے گا۔ اگر نہ مانیں تو قدموں پر سر رکھ دینا چاہیے، پھر خیال آیا، لا حول و لا قوۃ، آئندہ ہی سال دیکھا جائے گا، ورنہ پھر نوکری کرلیں گے۔ ایسی خوشامد سے تو موت بہتر ہے۔

ٹونڈلہ کا اسٹیشن آیا، میں آگرہ جا رہا تھا، سخت ضروری کام تھا۔ میں چونک سا پڑا۔۔۔ اب کیا کروں؟ یہ سوال تھا، واللہ اعلم ممتحن صاحب کہاں جا رہے ہیں۔ خیر کم از کم کانپور کا تو ٹکٹ لے لینا چاہیے چنانچہ یہی کیا۔ ٹکٹ لے کر واپس آیا تو ممتحن صاحب بیٹھے ہوئے ایک صاحب سے باتیں کر رہے تھے۔ شاید ان کے ملاقاتی ہیں، میں نے دل میں کہا۔ میں بیٹھ گیا۔ ممتحن صاحب نے پان کی ڈبیہ نکالی۔۔۔ میں گھبرایا مگر مجبوری۔ انہوں نے پیش کیا اور مجھے خوش ہوکر کھانا پڑا۔

’’کیوں جناب، پان بھی خوب چیز ہے۔‘‘ ممتحن صاحب نے اپنے دوست سے کہا۔ انہوں نے جواب دیا، ’’جی ہاں، مجھے تو بغیر پان کے سفر دوبھر ہو جاتا ہے۔‘‘

’’یہی میرا حال ہے۔‘‘ ممتحن صاحب بولے، اور پھر میری طرف مخاطب ہوکر پوچھا، ’’کیوں جناب آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

میری حالت کا اندازہ لگانا آسان ہے، ممتحن صاحب کے چہرے سے فتح کی مسرت عیاں تھی، میں بت کی طرح شکست خوردہ تھا، گلا صاف کر کے کہا، ’’جی ہاں!‘‘

’’اوہو آپ تو پان بڑی تیزی سے کھاتے ہیں۔ ختم ہوگیا، اور لیجیے۔‘‘ بیرسٹر صاحب نے کہا حالانکہ ختم نہ ہوا تھا، مگر کیسے کہتا کہ ختم نہیں ہوا اور دوسرا نہیں لوں گا، سو لیا اور کھا لیا۔ میں خاموش تھا اور ایک گونہ خوشی تھی کہ بیرسٹر صاحب اپنے دوست سے باتیں کرنے میں مشغول ہیں۔ تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے، میں سنتا رہا، مجھے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اب مجھے کہاں جانا ہے۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب نے شاید میری مصیبت کا اندازہ لگا لیا اور شش و پنج میں پاکر کہا، ’’اب تھوک دیجیے آپ تو چھا لیا کھا رہے ہیں۔‘‘ میں نے تھوک کر خلاصی پائی۔ شکر ہے کہ انہوں نے پھر پان نہیں دیا۔

(۵)

کانپور کے اسٹیشن پر میں نے بیرسٹر صاحب کی خدمت میں التجا کی۔ وہ کیا التجا تھی، میں خود نہیں کہہ سکتا کیونکہ نہ میں نے کچھ کہا اور نہ وہ سن سکے۔ مجبوراً انہوں نےکہا، ’’فرمائیے۔۔۔ کیا کہتے ہیں۔۔۔‘‘ بقول کسے یہاں صورت سوال تھی۔ بڑی مشکل سے میں نے کہا، ’’میری زندگی تباہ ہوجائے گی۔۔۔ میں کہیں کانہ رہوں گا۔۔۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان باتوں کا مختصر جواب یہ تھا، ’’معاف کیجیے۔ میں ایک مرتبہ کوئی کام کر چکا ہوں تو مشکل سے رائے تبدیل کر سکتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے لکھنؤ والی گاڑی کا رخ کیا۔ میں نے بھی دل میں کہا کہ نہ چھوڑوں گا۔

میں نے بیرسٹر صاحب کو چھوڑنا تھا نہ چھوڑا۔ خدا کی پناہ، ضلع جونپور کے ایک غیر معروف گاؤں میں آنا تھا۔ راستہ میں نہ میں نے ایک لفظ بیرسٹر صاحب سے کہا اور نہ انہوں نے۔ میں بالکل بے تعلق دور بیٹھا تھا، نہ انہوں نے پان دیا اور نہ بات کی۔ اتنا ضرور تھا کہ وہ مجھے کبھی کبھی غور سے ضرور دیکھ لیتے تھے۔ ضلع جونپور کے ایک غیرمعروف ریلوے اسٹیشن پر شاید بیرسٹر صاحب اور میں یہ دو ہی اترنے والے تھے۔ بیرسٹر صاحب نے شاید مجھ کو عمداً دیکھا تک نہیں۔ ایک چھوٹی سی بیلوں کی گڑی پر ان کا مختصر اسباب رکھ دیا گیا، اور میں نے دیکھا کہ گرد و غبار میں بیل تیزی سے جا رہے ہیں۔ دن کے دس بجے ہوں گے۔ ناشتہ نہ میں نے کیا تھا اور نہ بھوک ہی تھی۔ گاڑی کو دیر تک کھڑا دیکھتا رہاکہ ایک دم سےچونک پڑا۔ میں نے یہ بھی نہ معلوم کیا تھا کہ وہ کون سا گاؤں ہے جہاں بیرسٹر صاحب گئے ہیں۔ مگر ایک دہقانی نے از راہِ عنایت مجھے یہ پتہ دے دیا کہ فلاں فلاں گاؤں کے زمیندار صاحب کی گاڑی تھی۔ میں نے مزدور تلاش کیا اور اس کے سر پر اسباب لدوا کر چل دیا۔

شام کے چار بجے میں اس گاؤں میں پہنچا۔ زمیندار صاحب کا پتہ لگنا کیا مشکل تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے عالی شان قلعہ کےباہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ مزدور کے ساتھ اسباب باہر چھوڑا اور اندر داخل ہوگیا۔ سامنے چبوترے پر بیرسٹر صاحب پنکھے کے نیچے لیٹے ہوئے تھے۔ دو آدمی اور بھی کرسیوں پر لیٹے تھے۔ کچھ باتیں ہو رہی تھیں۔ کچھ ٹھٹکا مگر آگے بڑھا، اور جیسے نوارد پہنچا۔ بیرسٹر صاحب نے سلام کا جواب دیا۔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ خندہ پیشانی سے ملے۔ دریافت کیا کہ اسباب کہاں ہے۔ نوکر سے اسباب منگایا۔ ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ جا کر غسل کر لیجیے اور کپڑے اتاریے۔

میں بھی بے تکلفی سے سیدھا چلا گیا۔ نہا دھو کر نکلا تو کمرے ہی میں دودھ کا دیہاتی مقدار میں شربت موجود تھا۔ بیرسٹر صاحب نے صورت سے معلوم کر لیا ہوگا کہ بھوکا ہے۔ کمرے سے نکل کر باہر آبیٹھا۔ بیرسٹر صاحب نے پان پیش کیا جو کھانا پڑا میں بالکل ہی خاموش بیٹھا رہا حتی کہ دونوں آدمی اٹھ کر چلے گئے۔ مگر قبل اس کے وہ جائیں مجھ کو بیرسٹر صاحب چار پان کھلا چکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جب آپ سے کیا کہوں کہ پان کھاتے کھاتے میرا کیا حال ہوگیا۔ دو تین پانوں تک تو اس کا احساس بھی رہا کہ چونا منہ میں لگ رہا ہے، مگر شام تک تو منہ کی حالت ہی اور ہوگئی۔

یہ بیرسٹر صاحب کی سسرال تھی، اور شام کو ان کے خسر صاحب نکلے۔ میرا تعارف کرایا گیا کہ میں ایک کرم فرما ہوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہوں۔ رات کے آٹھ بجے تک داماد اور خسر اور کرم فرما بیٹھے باتیں کرتے رہے، مگر جو حال کرم فرما کا پان کھاتےکھاتے ہوگیا اس کو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کھانا کھایا گیا تو میرا منہ نہ چلتا تھا کیونکہ پانوں نے سارا منہ اندر سے زخمی کر دیا تھا اور اس پر چھا لیا گویا نمک پاشی کرتی تھی۔

’’پان بھی خوب چیز ہے۔‘‘ بیرسٹر صاحب نے کھانا کھانے کے بعد مجھے پان پیش کرتے ہوئے کہا۔

’’جواب نہیں رکھتا۔‘‘ مجھے کہنا پڑا۔

’’کھانے کو ہضم کرتا ہے، اور منہ کی گندگی کو دور کرتا ہےاور مفرح ہے۔‘‘ بیرسٹر صاحب نے کہا۔

’’مفرح بھی ہے۔‘‘ میں نے از راہ تعجب کیا۔

’’بہت عمدہ چیز ہے۔‘‘ خسر صاحب بولے، ’’لیکن اعتدال کے ساتھ۔‘‘

صبح کو مجھے موقع ملا کہ خسر صاحب سے اپنی مصیبت کا حال بیان کروں۔ صرف میں اور وہ ہی تھے اور بہترین موقع تھا کیونکہ انہوں نے خود بخود بہ سلسلہ گفتگو میری آئندہ زندگی کے بارے میں سوالات کیے تھے۔ انہوں نے میری داستان تعجب سے سنی، لیکن ہنسے بھی اور مجھ سے وعدہ سفارش کیا۔ اتنے میں بیرسٹر صاحب بھی آگئے۔ میں نہیں بیان کرنا چاہتا کہ کیا گفتگو ہوئی اور کیا ہوا۔ قصہ مختصر یہ طے ہوا کہ چار دن اور ٹھہروں اور رات دن پان کھاؤں بمصداق۔۔۔ ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر۔

ان چار دنوں میں کیا بتاؤں کہ کتنے پان کھانے پڑے۔ منہ کا برا حال تھا مگر پان پر پان کھاتا تھا اور اُف نہ کرتا تھا۔ چلتے وقت بیرسٹر صاحب نے کہا کہ ’’میرا پان اب آپ کبھی نہ بھولیں گے‘‘ اور بے شک حالانکہ سال بھر سے زائد گزر گیا ہے مگر ہنوز یاد تازہ ہے، جو شاید کبھی نہ بھولے۔

نتیجہ، اب خوب پان کھاتا ہوں!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.