ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو

ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو
by داغ دہلوی

ممکن نہیں کہ تیری محبت کی بو نہ ہو
کافر اگر ہزار برس دل میں تو نہ ہو

کیا لطف انتظار جو تو حیلہ جو نہ ہو
کس کام کا وصال اگر آرزو نہ ہو

محشر میں اور ان سے مری دو بہ دو نہ ہو
کہنے کی بات ہے جو کوئی گفتگو نہ ہو

قاتل اگر نہ شوخ ہو خنجر اگر نہ تیز
رگ رگ میں بے قرار ہمارا لہو نہ ہو

خلوت میں تجھ کو چین نہیں کس کا خوف ہے
اندیشہ کچھ نہ ہو جو نظر چار سو نہ ہو

سرخی ہے تیغ پر نہ حنا تیرے ہاتھ میں
قاتل کہیں سفید عدو کا لہو نہ ہو

وہ آدمی کہاں ہے وہ انسان ہے کہاں
جو دوست کا ہو دوست عدو کا عدو نہ ہو

دل کو مسل مسل کے ذرا ہاتھ سونگھئے
ممکن نہیں کہ خون تمنا کی بو نہ ہو

زاہد مزا تو جب ہے عذاب و ثواب کا
دوزخ میں بادہ کش نہ ہوں جنت میں تو نہ ہو

معشوق ہجر اس سے زیادہ کوئی نہیں
کیا دل لگی رہے جو تری آرزو نہ ہو

ایسے کہاں نصیب کہ وہ بت ہو ہم کلام
ہم طور پر بھی جائیں تو کچھ گفتگو نہ ہو

دست دعا کو ملتی ہے تاثیر عرش سے
جو ہاتھ سے ہو پاؤں سے وہ جستجو نہ ہو

غش آ نہ جائے دیکھ کے قاتل کو موج خوں
نازک مزاج کا کہیں ہلکا لہو نہ ہو

ہے لاگ کا مزا دل بے مدعا کے ساتھ
تم کیا کرو کسی کو اگر آرزو نہ ہو

یہ ٹوٹ کر کبھی نہ بنے گا کسی طرح
زاہد شکست توبہ شکست سبو نہ ہو

اے داغؔ آ کے پھر گئے وہ اس کو کیا کریں
پوری جو نامراد تری آرزو نہ ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse